Submitted by MSQURESHI on Wed, 10/11/2023 - 10:37
اردو میں خواتین کے علمی وادبی کارنامے ہندوستان کا عظیم تہذیبی سرمایہ PressRelease
اردو میں خواتین کے علمی وادبی کارنامے ہندوستان کا عظیم تہذیبی سرمایہ
مانو میںدوروزہ قومی کانفرنس کا افتتاحی ۔ پروفیسر سید عین الحسن‘ وائس چانسلر اور دیگر کا خطاب

 
حیدرآباد ،10 اکتوبر (پریس نوٹ) ہندوستان کی دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی خواتین نے اپنی تحریروںکے ذریعے علمی و ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ انھوں نے تمام اصنافِ ادب میں اپنے تجربات ومشاہدات کو رقم کر کے اردو کے سر مایہ کو مالا مال کیا ہے۔زبان وادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کو مستحکم کر نے میں ان کے کارنامے قابلِ قدر ہیں ۔انھیں ہم ہندوستان کا عظیم تاریخی وتہذیبی سر مایہ قرار دے سکتے ہیں۔ ہمیں یہ محاسبہ کر نے کی ضرورت ہے کہ ہم نے خواتین کی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا کتنا موقع دیا۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر 2 روزہ قومی کانفرنس بہ عنوان ”اردو اور دکن میںخواتین کی تحریریں و ادبی ثقافتیں:عصری منظر نامہ“ کے افتتاحی اجلاس میں کیا۔ یہ کانفرنس ، شعبہ تعلیمِ نسواں ‘ اردو یونیورسٹی ، انویشی ریسرچ سنٹر فار ویمنس اسٹڈیز اور محکمہ لسانیات و ثقافت، حکومتِ تلنگانہ کے اشتراک سے 10اور 11 اکتوبر کو منعقد کی جارہی ہے۔ پروفیسر اشرف رفیع ‘ سابق صدر شعبہ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی نے مخاطب کرتے ہوئے ریاستِ تلنگانہ اور دکن کی عظیم ثقافت پر روشنی ڈالی اور خواتین کے اردو کارناموں کو خراج تحسین پیش کیا۔ جبکہ مہمان اعزازی کے طور پر پروفیسر سوسی تھارو ‘ سابق صدر، شعبۂ مطالعاتِ ثقافت، ایفلو، حیدرآباد نے صحت کی ناسازی کے باعث ویڈیو پیغام بھیجا۔ پروفیسر شہناز نبی، سابق صدر شعبہ اردوڈائرکٹر ‘اقبال چیر، کلکتہ یونیورسٹی نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے مختلف اصناف ادب کے حوالہ سے نسائی ادب کی انفرادیت کے ساتھ ساتھ عصری منظر نامہ کا بھر پور جائزہ پیش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ خواتین کے ادب کی تاریخ مرتب کر نے کے لیے اداروں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر آمنہ تحسین، صدر شعبہ تعلیمِ نسواں نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں نسائی ادب کی اہمیت اور اس پر تحقیق وترتیب و اشاعت کی طرف توجہ دلائی۔ انھوں نے بتایا کہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ تلنگانہ کی یونی ورسٹیز کے اساتذہ، محققین، نقاد، مترجم اور آرکائیوز کے ماہرین نشریف لائے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر اسماءرشید‘ اسوسی ایٹ پروفیسر ‘ شعبہ انگریزی‘ ایفلو و سکریٹری‘ انویشی ریسرچ سنٹر نے کانفرنس کا مکمل تعارف اور اغراض ومقاصد پیش کیے۔ ڈاکٹر شبانہ کیسر، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ تعلیمِ نسواں نے کارروائی چلائی۔ کانفرنس میںمندوبین کے علاوہ معز زین شہر ، اساتذہ اور طلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔
 
حیدرآباد کی تہذیب میں محبت کا اثر
مانو میں مکرم جاہ یادگاری خطبہ۔ علامہ اعجاز فرخ، پروفیسر عین الحسن و دیگر کے خطاب

 
حیدرآباد، 10 اکتوبر (پریس نوٹ) حیدرآبادکی داستان ایک تہذیب کی داستان ہے ، نہ حسنِ کشمیر ہے نہ صبح بنارس کی دلکش تصویر ہے بلکہ یہ ایک من موہنی تہذیب ہے۔ یہاں کی تہذیب میں محبت کا اثر ہے ۔ دوسروں کو جگہ دینے کی خصوصیت زیادہ ہے۔ غدر کے بعد ہندوستان کے گوشے گوشے سے لوگ آئے ۔ وہ اپنے ساتھ اپنی تہذیب لے کر آئے اور اس کے اثرات یہاں کی تہذیب و ثقافت پر واقع ہوئے جس کے باعث یہاں کی تہذیب مشترکہ تہذیب کا نمونہ بن گئی ۔ یہاں کبھی بھی ذات پات، رنگ و نسل اور زبان کا جھگڑا نہیں رہا۔ حیدرآباد کا اپنا ڈاک نظام اورریلوے تھا ۔ اپنی کرنسی تھی ،اپنی عدالت تھی ، کوئی چیز انگریزوں کے تسلط کی نہیں تھی ۔ ان خیالات کا اظہار حیدرآباد کے ممتاز دانشور علامہ اعجاز فرخ نے مرکز مطالعاتِ اردو ثقافت ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے زیر اہتمام کل منعقدہ مکرم جاہ بہادر یادگاری خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔
علامہ نے مزید کہا کہ حیدرآباد کی ترقی کا آغاز میر محبوب علی خاں کے دور سے ہوتا ہے۔ چومحلہ پےلیس مظفرالملک ناصر جنگ کے زمانے کا پیلیس ہے۔ اس کی مثال ایران میں بھی نہیں ملتی۔ اس کا ڈائننگ ٹیبل اتنا وسیع ہے جہاں 200 افراد کی گنجائش ہے ۔تہذیب و ثقافت اور علم و فنون کی ترویج و توسیع میر محبوب علی خاں کے زمانے میں بڑے پیمانے پر ہوئی ۔ یہاں کا تعلیمی نظام میر محبوب علی خاں کا قائم کردہ ہے۔ لیکن ان کے بعد میر عثمان علی خاں کے دور میں بھی حیدرآبادکی بہت ترقی ہوئی۔ خصوصاً تعلیمی اعتبار سے یہاں بڑے بڑے کارنامے انجام دےے گئے ۔ مادری زبان میں تعلیم کا حصول اور جامعہ عثمانیہ میں دارالترجمہ کا قیام میر عثمان علی خاں کا کارنامہ ہے۔
پروفیسر سید عین الحسن نے صدارتی خطاب میں کہا کہ میرا پہلا تعارف 1984ءمیں حیدرآباد سے ہوا تھا جب میری ملاقات یہاں کے ایڈیٹرس اور اساتذہ سے ہوئی تھی۔ اس وقت روزنامہ منصف کے ایڈیٹر نے مجھے مدعو کیا تھا۔ گولکنڈہ کے ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے میںیہاں آیا تھا ۔ میرے کلام کو بہت پسند کیا گیاتھا۔ انہوں نے اس موقع پراپنی غزل کا ایک شعر بھی سنایا جو اس وقت کے مشاعرے میں انھوں نے پڑھا تھا اور جس پر انہیں دادوتحسین سے نوازا گیاتھا۔ انھوںنے یہاں کی شاعری کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ میرنے ولی کا رنگ لیا۔ میر جب اپنی نزاکتوںمیں الجھتے ہیں تو ولی کی طرف دیکھتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جو بات یہاں کے ”ہَو“ میں ہے وہ ہاں میں نہیں اور جو بات نکّو اور نئیں میں ہے وہ ”نہیں“ میں نہیں ۔
محترمہ اندرا دیوی دھن راجگیر نے اس خطبے میں آن لائن شرکت کی اور اس کامیاب پروگرام کے انعقاد کے لےے ذمہ داران پروگرام کو مبارکباد پیش کی۔ مہمان خصوصی جناب شاہد حسین زبیری نے مکرم جاہ بہادر کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات اور ہم کاری کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور کہا کہ مکرم جاہ کی جو شخصیت ہے انہیں میں مرحوم کہہ ہی نہیں سکتا ۔ انھوں نے مکرم جاہ ایجوکیشنل ٹرسٹ قائم کیا تھا۔اس کی مالیت اس دور میں نظام چیریٹبل ٹرسٹ سے بہت زیادہ تھی ۔ آج متعدد تعلیمی ادارے اس ٹرسٹ کے زیر پرستی چل رہے ہیں ۔ انھوں نے کہاکہ مکرم جاہ جیسی شخصیت پیدا ہونا مشکل ہے۔
جلسے کا آغاز جناب محمد طیب قاسمی، ریسرچ اسکالر مرکز مطالعاتِ اردو ثقافت کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔پروفیسر عزیز بانو ، ڈین اسکول برائے السنہ ، لسانیات و ہندوستانیات نے استقبالیہ کلمات پیش کےے۔ پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی ، ڈائرکٹر مرکز نے کارروائی چلائی۔ اس موقع پر پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی کی دو تصانیف ”عشرت کدہ ¿ آفاق: چندو لعل شادان“ اور ”دفتر عشق : کلیاتِ ماہ لقا چندا“ کی شیخ الجامعہ کے ہاتھوں رسم رونمائی انجام دی گئی ۔علاوہ ازیں مرکزمطالعاتِ اردو ثقافت کے زیر اہتمام شائع ہونے والے جریدے ”ادب و ثقافت“ شمارہ نمبر17 کا بھی اجراعمل میں آیا ۔ڈاکٹر احمد خان ، اسوسی ایٹ پروفیسر ، مرکز مطالعاتِ اردو ثقافت کے شکریہ پر پروگرام کا اختتام عمل میں آیا ۔
 
مانو میں تدریس اساتذہ کے نئے افق پر کانفرنس کا انعقاد
 پروفیسر چاند کرن سلوجا و دیگر کے خطاب۔ آئی ٹی ای پی کورس کا افتتاح
 
حیدرآباد، 10 اکتوبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، اسکول برائے تعلیم و تربیت کے زیر اہتمام کل 4 سالہ انٹیگریٹیڈ ٹیچر ایجوکیشن پروگرام(آئی ٹی ای پی) پروگرام کے آغاز کے موقع پر ”تدریس اساتذہ کے نئے افق کی پیشکش: چیلنج و امکانات“ کے زیر عنوان پر ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔
مہمان خصوصی، پروفیسر چاند کرن سلوجا نے زبان کی رکاوٹوں اور تعمیری نقطہ نظر (این سی ایف-2005) کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مزید اس حقیقت پر زور دیا کہ 4 سالہ آئی ٹی ای پی پروگرام اساتذہ کو چار مراحل کے لیے تیار کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یعنی این ای پی 2020 کے نئے اسکول ڈھانچے کے مطابق فاؤنڈیشنل، پریپریٹری، مڈل اور ثانوی مراحل۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ اس کورس کو مکمل کرنے والے طلبہ ، ہندوستانی اقدار ، زبانوں، علم ، اخلاقیات ، قبائلی روایت پر مبنی ہوں گے اور تعلیم اور تدریس میں جدید ترین پیشرفت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں گے۔
پروفیسر سید عین الحسن ، وائس چانسلر ما نو، نے اپنے صدارتی خطاب میں اساتذہ کے باہمی تعاون کے جذبے پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر محمد مشاہد نے شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر اشتیاق احمد ، رجسٹرار نے آئی ٹی ای پی کے آغاز کے لیے کی گئی کوششوں پر روشنی ڈالی۔
اس موقع پر پروفیسر شگفتہ شاہین، او ایس ڈی I نے دیگر شعبہ جات کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کی۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، او ایس ڈی II نے اساتذہ کے اہم کردار اور اکیسویں صدی میں اساتذہ کی تعلیم کے نصاب کو تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو این ای پی 2020 کے اقدامات سے ہم آہنگ ہے۔
پروفیسر ونجا. ایم ، ڈین نے آئی ٹی ای پی کا جائزہ پیش کیا اور کمیٹی اراکین اور تمام شعبہ جات کے صدور و ڈین کی مخلصانہ خدمات کا اعتراف کیا۔ پروفیسر شاہین الطاف شیخ، صدر شعبہ نے مانو میں آئی ٹی ای پی کے اجراءکے موقع پر استقبال کیا۔ افتتاحی سیشن کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔
پینل مباحثہ میں ممتاز ماہرین تعلیم پروفیسر مدھوسودن جے وی، ہیڈ، ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن اینڈ ایجوکیشن ٹیکنالوجی، یونیورسٹی آف حیدرآباد، ڈاکٹر پی شنکر، فیکلٹی، اسکول آف ایجوکیشن، عثمانیہ یونیورسٹی ، پروفیسر سرینواس راؤ، ڈین، اندرا مہند را اسکول آف ایجوکیشن، مہندرا یونیورسٹی اورپروفیسر گھنٹہ رمیش اعزازی پروفیسر، نظامت فاصلاتی تعلیم شریک تھے۔ پروفیسر اشتیاق احمد نے اختتامی خطاب کیا اور پروفیسر وقار النساءنے شکریہ ادا کیا۔ انتظامی ٹیم کی قیادت پروفیسر محمد مشاہد کر رہے تھے۔ ڈاکٹر اشونی، کوآرڈینیٹراور ڈاکٹر وی ایس سومی، شریک کوآرڈینیٹر تھے۔ اساتذہ ڈاکٹر رفیع محمد، ڈاکٹر فردوس تبسم، ڈاکٹر صمد تھزے وڈکیل، ڈاکٹر جرار احمد، ڈاکٹر اشرف نواز، ڈاکٹر ام سلمیٰ اور ڈاکٹر پروین کمار نے بھی انتظامات میں حصہ لیا۔

اردو یونیورسٹی میں فیکلٹی ڈیولپمنٹ پروگرام کا افتتاح
پروفیسراشتیاق احمد کا خطاب
حیدرآباد، 10 اکتوبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، مرکز پیشہ ورانہ فروغ برائے اساتذہ اردو ذریعہ تعلیم (سی پی ڈی یو ایم ٹی)کے زیر اہتمام اسسٹنٹ پروفیسرس کے لیے اڈوانسڈ پیڈاگوگیس (FDP on Advanced Pedagogies) پر دو ہفتہ طویل آن لائن فیکلٹی ڈیولپمنٹ پروگرام کا کل افتتاح عمل میں آیا۔
پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرارنے اپنے خطاب میں کہا کہ مانو تعلیم و تدریس میں عمدگی کو فروغ دینے کے لیے پُرعزم ہے۔ یہ پروگرام جو اساتذہ کو ایسے علم و فن سے آراستہ کرتا ہے جس کی انہیں ضرورت ہے۔ تعلیم و تدریس کے تئیں یونیورسٹی کے عزم کا اظہار بھی ہے۔اس کے ذریعہ تدریس اور سیکھنے کے طریقوں میں نمایاں بہتری آئے گی جس سے ملک بھر کے طلباءکو فائدہ پہنچے گا۔
پروفیسر عبدالواحد، ڈین، اسکول آف ٹیکنالوجی افتتاحی اجلاس کے مہمان خصوصی تھے۔پروفیسر محمد عبدالسمیع صدیقی، ڈائرکٹر،مرکز نے افتتاحی کلمات پیش کیے۔ڈاکٹر محمد یوسف خان، پرنسپل، مانو پالی ٹیکنیک حیدرآباد و کوآرڈینیٹر پروگرام نے شکریہ ادا کیا جبکہ ڈاکٹر مصباح انظر، اسسٹنٹ پروفیسر نے کاروائی چلائی۔
پروگرام کے انعقاد کا مقصد ااساتذہ کو جدید تدریسی تکنیکوں اور حکمت عملیوں کے ذریعے بااختیار بنانا ہے۔ 21 اکتوبر تک جاری اس پروگرام میں ملک کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے 80 سے زائد اسسٹنٹ پروفیسرس شرکت کررہے ہیں۔
MANUU Pr 10-10-2023.pdf