دکن کے فرمانرواﺅں کی تاریخ، سیکولرزم و مذہبی رواداری سے عبارت اُردو یونیورسٹی میں قومی سمینار کا افتتاح۔ پروفیسر سلیمان صدیقی، ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اور پروفیسر م ن سعیدکی مخاطبت
حیدرآباد، 29 جنوری (پریس نوٹ) سیکولرزم اور مذہبی رواداری دکنی فرمانرواﺅں کا طرہ ¿ امتیاز رہا ہے۔ لنگایت طبقے میں مقبول احمد شاہ بہمنی کا عرس 1980 تک بھی لنگایت مذہبی پیشوا ہندو کیلنڈر کے مطابق منایا کرتے تھے۔ ابراہیم قطب شاہ نہ صرف تلگو بول سکتا تھا کہ بلکہ اس کے دربار سے بڑی تعداد میں تلگو شعراءمنسلک تھے اور وہ خود پہلا مسلم تلگو شاعر تھا۔ اس کے فرامین فارسی اور تلگو میں ایک ساتھ شائع ہوتے تھے۔ حیدرآباد کے نظام ہفتم میر عثمان علی خان نے اجنتا، ایلورا غاروں کی بازیابی کے لیے یوروپ سے ماہرین کو بلوایا اور اس دور کے لاکھوں روپئے خرچ کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے حیدرآباد ہی نہیں ہندوستان کے کئی بڑے منادر کے لیے خطیر گرانٹس بھی جاری کیں۔ یہی رواداری دکن کے ہندو راجہ مہاراجہ بھی روا رکھتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز اسکالر پروفیسر محمد سلیمان صدیقی، سابق وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی نے آج مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی، ہارون خان شیروانی مرکز برائے مطالعاتِ دکن کے زیر اہتمام دو روزہ قومی سمینار کے افتتاحی اجلاس میں کیا۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے اشتراک سے منعقد ہونے والے اس سمینار کا عنوان ”دکن میں علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کا ارتقا ،عہد کاکتیہ سے عہد آصف جاہی تک“ ہے۔
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ دکن کے حکمراں اسلام کو بھی سمجھتے تھے اور تہذیب کو بھی سمجھتے تھے۔ موجودہ نفرتوں کو کاٹنے کیلئے ہمیں اپنے کردار کو مضبوط بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مظاہر قدرت کو دوسرے مذہب سے منسوب کرتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کرلینا قرآنی تعلیم کے منافی ہے، کیونکہ تمام اشیاءکو قرآن میں آیات (نشانیاں) قرار دیا گیا ہے۔ عقیدہ کا تعلق عمل سے ہے صرف الفاظ سے نہیں۔ انہوں نے موجودہ دور میں مختلف جگہوں پر نظر آرہی ہندو مسلم رواداری کو خوش آئند قرار دیا۔
پروفیسر م ن سعید، ڈائرکٹر دکن اسٹڈیز، بنگلور و نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کاکتیہ دور کے متعلق اہم معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے کہا کہ کاکتیہ حکمران گنپتی دیوا نے بڑے پیمانے پر تلنگانہ اور آندھرا کے علاقوں میں تالاب اور مندر بنوائے۔ اس کی بیٹی رودرامبا نے بھی اپنے والد کی روایت قائم رکھی اور ریاست کو مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن رکھا۔ اس کے عہد میں ذات پات کا مسئلہ نہیں تھا۔ انہوں نے دکن کی تاریخ سے مربوط رواداری کے پیام کو عام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر زرینہ پروین ، ڈائرکٹر تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز نے کہا کہ دکن کے تمام سلاطین سیکولر تھے۔ وہ اپنی رعایا کو اولاد کی طرح سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اکثر فرامین اردو اور تلگو میں جاری کیے گئے۔ انہوں نے ایک فرمان کے حوالے سے کہا کہ میر عثمان علی خان کے جشن سیمیں (سلور جوبلی تقاریب) کے موقع پر کئی قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا گیا تھا۔ اس موقع پر ایک عورت دربار میں داخل ہوئی اور فریاد کی کہ وہ ایک قیدی بھیم کی بیوی ہے اور اس کے چھوٹے بچے ہیں۔ اس لیے بھیم جس کی سزا کافی طویل باقی تھی اسے بھی رہا کیا جائے۔ اس پر انسانی بنیادوں پر عثمان علی خان نے بھیم کی رہائی کا بھی حکم جاری کیا۔ ممتاز اسکالر محترمہ اودیش رانی باوا نے کہا کہ اردو جوڑنے والی زبان ہے۔ جب بھی اردو ادب کا مطالعہ کیا جائے گا اس میں اسلام، ہندو مت، بدھ مت، سکھ مت جیسے کئی مذاہب کا مطالعہ ہوجائے گا۔ انہوں نے دکن کو محفوظ ترین خطہ قرار دیا اور توڑنے والی طاقتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی بات کی۔
پروفیسر محمد نسیم الدین فریس، ڈائرکٹر مرکز نے خیر مقدمی خطاب میں سمینار کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ہند میں سیاسی سطح پر بادشاہوں میں رسہ کشی ضرور رہی لیکن وہ فوجی سطح پر نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس سمینار کا موضوع 1163-1948 کا احاطہ کرتا ہے۔ پروفیسر فریس نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کو منافرت پھیلانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ ڈاکٹر ثمینہ کوثر، اسسٹنٹ پروفیسر عربی کی قرا ¿ت کلام پاک سے جلسے کا آغاز ہوا۔ پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، جوائنٹ ڈائرکٹر مرکز نے کارروائی چلائی۔