Submitted by MSQURESHI on Fri, 03/13/2020 - 11:05
a a a اخبارات کے لیے خبریں PressRelease

فلمیں محض تفریح کا نہیں بلکہ مسائل کی نشاندہی کا بھی ذریعہ
اردو یونیورسٹی میں فلم فیسٹول کا اعجاز خان کے ہاتھوں افتتاح۔ پروفیسر ایوب خان اور پروفیسر رحمت اللہ کی مخاطبت
 

حیدرآباد، 12 مارچ (پریس نوٹ) فلمیں محض تفریح کا ذریعہ نہیں ہوتیں بلکہ ان سے سماجی مسائل کی نشاندہی کی جاسکتی ہے اور تعلیمی مقاصد کے لیے بھی انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سنیما نے معلوماتی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایوب خان، وائس چانسلر انچارج نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، انسٹرکشنل میڈیا سنٹر (آئی ایم سی) کے سنیما کلب سنیماتھیک مانو اور ڈاکٹوریٹ آف فلم فیسٹولس (ڈی ایف ایف)، وزارت اطلاعات و نشریات، حکومت ہند کے زیر اہتمام ”انڈین پنوراما فلم فیسٹول“ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر قومی ایوارڈ فلم ”حامد“ کے ڈائرکٹر جناب اعجاز خان اور پروڈیوسر محترمہ فوزیہ خان بھی موجود تھیں۔
جناب اعجاز خان نے کہا کہ انہیں اردو یونیورسٹی کیمپس کو دیکھ کافی مسرت ہوئی۔ یہاں آمد ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
انہوں نے حاضرین کو فلم دیکھ کر ان سے سوالات کرنے کی درخواست کی۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، رجسٹرار نے کہا کہ ان کی فلم ڈائرکٹر اعجاز خان سے کچھ دیر فلم کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ پتہ چلا کہ صرف ایک فقرہ کو لے کر انہوں نے کہانی تیار کی پھر اس پر فلم بھی بنا ڈالی اور قومی ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس سے اعجاز خان کی قابلیت عیاں ہوتی ہیں۔ انہوں نے میڈیا سنٹر اراکین اور ڈائرکٹر جناب رضوان احمد کی فلم فیسٹول کے انعقاد کے لیے ستائش کی۔
جناب رضوان احمد نے خیر مقدمی تقریر میں کہا کہ ثقافتی اور دانشورانہ سطح پر اظہارِ خیال کے لیے دیگر فنون کے مقابلے سنیما ایک بہترین ذریعہ ہے۔ انہوں نے ہدایت کاری اور کہانی کو فلم کی جان قرار دیا۔ انہوں نے میڈیا سنٹر، مانو کے فلم کلب سنیماتھیک مانو کی جانب سے منعقد کردہ فلم فیسٹولس کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ فلم فیسٹول میں پیش کردہ فلمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ محض تفریح کے لیے نہیں بنائی جاتیں۔ اس پر سماجی اور سیاسی موضوعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ جناب امتیاز عالم، ریسرچ آفیسر نے کارروائی چلائی۔ جناب عمر اعظمی نے جناب اعجاز خان کا نہایت خوبصورت تعارف پیش کیا اور بتایا کہ انہوں نے 400 اشتہاری فلمیں تیار کی ہیں۔ جناب عامر بدر، پروڈیوسر نے شکریہ ادا کیا۔ بعد میں فلم ”حامد“ کی نمائش کی گئی۔ جس میں ایک 7 سالہ بچے کی دل کو چھولینے والی کہانی ہے جو اپنے مرحوم والد سے ’اللہ کے نمبر‘ 786 پر فون کرتا ہے۔ یہ کہانی کشمیر کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ جہاں نامساعد حالات میں بکھری زندگیوں کو امید دلائی گئی ہے۔

 

اردو یونیورسٹی میں بزم ادب کا افتتاحی اجلاس
پروفیسر بیگ احساس، پروفیسر نسیم الدین فریس اور پروفیسر فاروق بخشی کی مخاطبت

حیدرآباد، 12 مارچ (پریس نوٹ) ”شعبہ ¿ اردو کی جانب سے ’بزم ادب ‘کا قیام ایک خوش آئند قدم ہے اور اس کے ذریعے نہ صرف طلبا کی ہمہ جہت ترقی ممکن ہو سکے گی بلکہ ان کی زبان اور بیان میں بھی نکھار پیدا ہوگا۔وہ الفاظ کا محلِ استعمال،تلفظ اور ادائیگی کے طور طریقوں سے واقف ہوسکیں گے۔ لکھنا سیکھنے کے لیے پڑھنا بے حد ضروری ہے۔ ہمارے طالب علموں کو چاہیے کہ وہ جس صنف میں بھی طبع آزمائی کرناچاہتے ہیںاس صنف کے اہم قلم کاروں کی تخلیقات کا غائر مطالعہ کریں۔ اس سے انھیں اس فن کی ماہیئت سمجھنے اوراپنی تحریروں میں اسے برتنے میں آسانی ہوگی۔ کامیاب ادیب یا شاعر بننے کے لیے گہرا مطالعہ اور مشق و ریاضت بنیادی شرائط ہیں۔“ ان خیالات کا اظہار ممتا ز افسانہ نگار، نقاد اور شعبہ ¿ اردو ، سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد کے سابق صدر پروفیسرمحمد بیگ احساس نے آج بزمِ ادب، شعبہ ¿ اردو،مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کی جانب سے اسکول براے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات کے کانفرنس ہال میں منعقدہ افتتاحی ادبی اجلاس میں کیا۔
پروفیسر محمد نسیم الدین فریس ،صدر شعبہ ¿ اردو اور ڈین اسکول براے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے استقبالیہ خطاب میں شعبہ ¿ اردو کی مختصر تاریخ اور اس کی حصول یابیوں سے واقف کرایا۔انھوں نے بزم ادب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ ¿ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے طلباوطالبات میںعلم و ادب کاذوق وشوق پروا ن چڑھانے، انھیں اردو تہذیب و ثقافت کے عظیم ورثے سے واقف کرانے اور ان میں مسابقت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ایسی طلبا مرکوز علمی و ادبی سرگرمیوں اور ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کی ضرورت ہے جن میں شعبے کے تمام طلباوطالبات کی شمولیت ممکن ہوسکے ۔پروفیسر فاروق بخشی نے مختصر لیکن جامع انداز میں پروفیسر بیگ احساس کا تعارف پیش کیا اور ان کی افسانہ نگاری کے نمایاں پہلوو ¿ں سے واقف کرایا۔ انھوںنے بیانیہ کی واپسی میںپروفیسر بیگ احساس کی کوششوںکا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے دیگر افسانہ نگاروں سے ان کا موازنہ بھی کیا اور ان کی فنی خصوصیات اجاگر کیں۔
اس موقعے پر ڈاکٹر شمس الہدیٰ دریابادی نے شعبہ ¿ اردو کی علمی و ثقافتی سرگرمیوں، اس کے فارغین کی کامیابیوں اور پورے ملک کے اردو طلبہ کا مرکز توجہ ہونے کے امتیاز پر مختصر روشنی ڈالی۔بزم ادب کے نگراں ڈاکٹر فیروز عالم نے بتایا کہ مختلف علمی و ادبی سرگرمیوں اور ثقافتی پروگراموںکے ذریعے طلبا و طالبات کی ہمہ جہت شخصی ترقی اوراُن میں خود اعتمادی پیدا کرنے میں مدد ملے گی ۔ وہ نہ صرف قومی سطح کے مسابقتی امتحانات میں کامیابی حاصل کرسکیں گے بلکہ اردو کی تہذیبی و ثقافتی روایات سے بھی واقف ہو سکیں گے۔ ’بزم ادب‘کی جانب سے طلباو طالبات کی تخلیقی، تحقیقی وتنقیدی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے علمی،ادبی وثقافتی پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس کی جانب سے سیمنار، سمپوزیم،مضمون نویسی ، بیت بازی اور کوئزوغیرہ کے مقابلے بھی منعقد کیے جائیں گے۔
ادبی اجلاس میںشعبے کے طلبا سلمان فارسی،محمد شبلی آزاد،محمد طفیل، عثمان غنی، محمد ریاض،حفیظ الرحمن، اعجاز احمد،ارشد علی، محمد طیب، شیخ اسما امروز اور محمد بشیر نے شعری و نثری تخلیقات اور مضامین پیش کیے۔ جلسے کا آغاز تجمل حق کی قرا ¿ت کلام پاک سے ہوا۔ نظامت بزم ادب کے شریک کنوینر شبلی آزاد نے کی اور اظہار تشکر بزم ادب کی کنوینر شیخ اسما امروز نے کیا۔جلسے میں شعبہ ¿ اردو کے علاوہ دیگر شعبوں کے اساتذہ اور آفیسران بھی موجود تھے۔