اُردو کو عوامی زبان بنانے میں اس کے تہذیبی اداروں کا اہم کردار
اُردویونیورسٹی کے سیمینار میں پروفیسربیگ احساس ،پروفیسر شہپر رسول ودیگرکے خطابات
حیدرآباد، 16 فروری (پریس نوٹ) اردو کی حکائی روایتوں نے سماجی وتہذیبی اداروں یا اصناف کو جنم دیاجن میں مشاعرہ، قوالی ، چہاربیت ، مرثیہ خوانی، غزل گائیکی ، داستان گوئی وغیرہ قابل ذکرہیں جن کے سبب اردو نے خاص و عام میں مقبولیت حاصل کی۔ سنٹرفار اردوکلچراسٹڈیز (سی یو سی ایس)، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے ”اردو زبان کے تہذیبی و ثقافتی ادارے“کے موضوع پر منعقدہ دوروزہ آن لائن سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں کل شام کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ممتازافسانہ نگار اور ناقد پروفیسر بیگ احساس، سابق صدر شعبہ اردو ، حیدرآبادیونیورسٹی نے ان خیالات کا اظہارکیا اورتہذیبی اداروں کی روایت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی سمینار کے انعقاد میں تعاون کر رہی ہے۔
اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وائس چانسلر مانو، پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے کہا کہ اردو آج بھی ترسیل، علم ، تفریح اور روزگار کا ذریعہ اورہندوستان کی ایک باوقار ترقی یافتہ زبان ہے۔ اسی بناپر یہ زبان نہ صرف بطور زبان بلکہ تہذیب و ثقافت کے میدان میں بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔انہوںنے اردوادب کے فروغ میں سی یو سی ایس کی کاوشوں کی ستائش کی۔
ممتاز ادبی شخصیت مہمان خصوصی پروفیسر شہپر رسول،شعبہ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے سیمینار کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اردوکے ایسے اداروں کا احاطہ کیا ہے جنہوں نے اردوزبان کو خواص کے دائرے سے نکال کر بیکراں عوامی وسعتوں سے اس طرح ہم کنار کیا کہ یہ زبان ہندوستان کی لینگوافرینکا کے منصب پر فائزہوگئی۔انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان کے ادب اور اس کی تہذیب و ثقافت کو دنیا کے دوردراز علاقوں تک پہنچانے میں ویبینار ، ویب کانفرنس اور ویب مشاعروںکا غیر معمولی حصہ ہے چنانچہ ویب دنیا کو اردو کے تہذیبی و ثقافتی عناصر میں شمار کیا جانا چاہیے۔
مہمان اعزازی پروفیسر نسیم الدین فریس ، ڈین ، السنہ، لسانیات و ہندوستانیات، مانو نے کہا کہ اردو زبان و تہذیب کا تعلق سماج سے انتہائی گہرا ہے، یہ ایک ایسا جامع عنوان ہے جس نے اردو،تہذیب، ثقافت اور ادارہ ،ان تمام عناصر کا احاطہ کیا ہے ۔ یہ ایک مثلث ہے جس کے ایک سرے پر اردو، دوسرے سرے پر تہذیب و ثقافت اور تیسرے سرے پر سماج واقع ہے۔ان اداروں کے سبب اردوکی ایک خوبصورت تہذیب نے جنم لیا ہے۔
سیمینار کے محرک پروفیسر محمد ظفرالدین ، ڈائرکٹر، سی یو سی ایس نے اپنے استقبالیہ کلمات میں سیمینار کی غرض و غایت کا ذکر کیا اور کہا کہ اس سیمینار میں اردو کے ان تہذیبی عناصر کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جائے گی جن کے مرکب سے اردو تہذیب و ثقافت کا وجود قائم ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو کلچر سنٹر کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اردو کے حوالے سے ڈرامہ ، بیت بازی ،غزل گوئی، مشاعرہ وغیرہ کی زائداز نصابی سرگرمیوں کا انعقاد،کتابوں کو آن لائن مرتب کرنا،یونیورسٹی اور سنٹر میں موجود کتابوں کو عوام کی دہلیز تک پہنچانے کا انتظام کرنا سنٹر کے اہم مقاصد ہیں۔
سیمینارکو یوٹیوب پر نشر کرنے اور مہمانان کو آن لائن جوڑنے میںانسٹرکشنل میڈیا سنٹرنے اپنا بھر پور تعاون فراہم کیا۔ کنوینر ،ڈاکٹر احمد خان نے ہدیۂ تشکر پیش کیا اور نظامت کے فرائض انجام دیے۔اجلاس کا آغاز جناب ابرارافضل ،کارکن ڈی ٹی پی کی تلاوت قرآن سے ہوا۔
بہار میں دینی مدارس کے لیے ریسورس سنٹرس کا قیام طلبہ کے خوابوں کی تعبیر
تعلیمی پروگرام برائے نوبالغان پر پٹنہ میں سہ روزہ ورکشاپ کا افتتاح۔ ماہرین کے خطاب
حیدرآباد، 16 فروری (پریس نوٹ) بہار کے مدارس میں تعلیمی پروگرام براے نوبالغان کے موضوع پر سہ روزہ ورکشاپ کا انعقاد ملٹی پارٹنر پروجیکٹ کے تحت ہوٹل چاڑکیہ، پٹنہ میں عمل میں آرہا ہے۔ جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،حیدرآباد کی اہم علمی شخصیات کے علاوہ بہار کے دانشوران نے مدارس اسلامیہ کی تعلیمی صورت حال پر اظہار خیال کیا اور بہار سرکار کی جانب سے ریسورس سنٹرس کے قیام اور اس کی افادیت کے مختلف پہلوﺅں کو اجاگر کیا اور اسے مدارس کے بچوں کے خوابوں کی تعبیر قرار دیا۔
پروگرام کا افتتاح مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،حیدرآباد -سی ٹی ای ، دربھنگہ کے پرنسپل اور اس پروگرام کے کوآرڈینیٹر پروفیسر محمد فیض احمد کی استقبالیہ تقریر سے ہوا، اقوام متحدہ آبادی فنڈ جو متعدد پروگرامس کا اسپانسر ہے، کے اسٹیٹ چیف ڈاکٹر ندیم نور نے کہا کہ تیزی کے ساتھ بدلتی دنیا کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے مصنوعی اور جذباتی ذہانت کا سہارا لینا پڑے گا اور دینی مدارس کو 21ویں صدی کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیتوں سے لیس ہونا ہوگا ،اس کے لئے یو این ایف پی اے، مدرسہ بورڈ ، مانو اور جامعہ جیسے اہم ادارے ، بہار سرکار کی سربراہی میں جگہ جگہ ریسورس سینٹر کے قیام کا خاکہ تیار کر ر ہے ہیں۔
ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم ڈاکٹر عامر سبحانی نے کہا کہ دارصل ہما ری آبادی کے پسماندہ ہونے کی بنیادی وجہ ابتدائی تعلیم کا کمزور ہونا ہے کیونکہ یہ بات صرف سول سروسز کے امتحانات میں کامیابی اور ناکامی پر مبنی ڈیٹا سے نہیں بلکہ داروغہ اور سپاہی کے امتحانات کے نتائج دیکھنے سے بھی یہی وجہ نظر آتی ہے اور تعصب کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
پروفیسر اعجاز مسیح، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا کہ تعلیم نو بالغان کے تعلق سے جامعہ نے ٹریننگ ماڈیول کو تیار کیا ہے جس کے اندر سائنس اور تہذیب و ثقافت کا ایک خوبصورت سنگم ہے اور عملی مشق کے ذریعہ طلبہ کی زندگی کی مہارتوں کو فروغ دینے میں مدد مل رہی ہے اب صدر مدرسین کے ٹریننگ ماڈیول کو بھی تیار کر لیا گیا ہے جو بہت جلد منظر عام پر آجا ئے گا۔
تعلیم نو بالغان کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ،مانو، پروفیسر محمد شاہد نے کہا کہ زمینی سطح پر اس پروگرام سے مستفید ہونے والے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان اس پروجیکٹ کو بہت ہی پذیرائی حاصل ہورہی ہے اور آج کی تاریخ میں یہ پروگرام روایتی تعلیم نو بالغان سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور دوسری ریاستوں میں اپنی کامیابی کی وجہ سے بحث و مبا حث کا مرکز بن چکا ہے۔ سابق رکن، بہار پبلک سروس کمیشن ڈاکٹر شفیع مشہدی نے کہا کہ اس وقت مدارس اسلامیہ کو نئی تعلیمی پالیسی سے ہونے والی تبدیلیوں سے باخبر رہنا ہوگا اور اپنے تمام تر اختلاف رائے کے باوجود اس کی سچائی کو قبول کرنا ہوگا اور اپنی بنیادی شناخت کو باقی رکھتے ہوئے اپنی صف بندی از سر نو کرنی ہوگی۔ دانشور و معروف سرجن ڈاکٹر احمد عبدالحی نے کہا کہ عرصۂ دراز سے ہمارے مدارس کو نظر انداز کر دیا گیا تھا اور اس وقت اگر کوئی مدارس میں نئی روح ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ قا بل تعریف ہے۔سابق چیئرمین جناب یونس حکیم نے مدارس کو در پیش مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ سکریٹری محکمہ اقلیتی فلاح محترمہ سفینہ نے اس پروگرام کو مقبول بنانے کی حکمت عملی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے حصول کوآسان بنانے کی ضرورت ہے ۔ مدارس کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور بہتر مواقع پیدا کرنے کی کوشش ہر ایک کو کرنی ہوگی۔