Submitted by MSQURESHI on Wed, 06/08/2022 - 11:29
اُردو یونیورسٹی میں ”صنف اور شمولیت“ پر قومی کانفرنس کا افتتاح۔ پروفیسر کنڈو، عامر اللہ خان اور عارفہ خانم دیگر کے خطاب PressRelease

ہندو-مسلم تقسیم اور صنفی عدم مساوات سماج کے لیے خطرناک
اُردو یونیورسٹی میں ”صنف اور شمولیت“ پر قومی کانفرنس کا افتتاح۔ پروفیسر کنڈو، عامر اللہ خان اور عارفہ خانم دیگر کے خطاب
حیدرآباد، 6 جون (پریس نوٹ) ہندو- مسلم تقسیم اور صنفی عدم مساوات سماج کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ اس کے باعث ترقی کی راہیں مسدود ہوتی چلی جاتی ہیں۔ سال 2011 میں مردم شماری ہوئی تھی۔ اس لیے ہمارے پاس مواد موجود تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ موجودہ حالات صرف معیشت اور نظامِ صحت کے لیے ہی نہیں بلکہ مواد (ڈیٹا) کے لیے بھی انتہائی مایوس کن رہے ہیں۔ ہم ملک کی آبادی کے بارے میں نہیں جانتے، کھپت، اخراجات کے اعداد و شمار نہیں جانتے اور ہمیں نہیں معلوم کہ مردم شماری کب ہوگی۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ خواتین کی اخراجیت کے مردوں کے مقابلے 1.5 فیصد زیادہ ہے۔ خواتین کے متعلق سروے کے ذریعہ حاصل کردہ مواد بھی عمومی طور پر صحیح نہیں ہوتا۔ کیوں کہ لوگ خواتین کے متعلق صحیح معلومات فراہم نہیں کرتے۔ جو مواد دستیاب ہے وہ بھی بہت ہی چھوٹے پیمانے پر ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر امیتابھ کنڈو، سینئر فیلو آر آئی ایس نے مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی ، مرکز برائے مطالعاتِ نسواں (سی ڈبلیو ایس) اور سنٹر فار ڈیولپمنٹ پالیسی اینڈ پریکٹس (سی ڈی پی پی)، حیدرآباد کے زیر اہتمام قومی کانفرنس ”صنف اور شمولیت: مسلم خواتین کے خصوصی حوالے سے“ کے افتتاحی دن پینل مباحثہ میں کیا۔ لائبریری آڈیٹوریم، مانو کیمپس میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں گونج، صفائ، ساہیتہ ٹرسٹ، ڈیجیٹل ایمپاورمنٹ فاﺅنڈیشن(ڈیف) اور سوچناپرینیور اشتراک کر رہے ہیں۔
بہت زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ”Born a Muslim“ (پیدائشی مسلمان) کی مصنفہ محترمہ غزالہ وہاب، مصنف اور ایگزیکٹو ایڈیٹر، فورس نے کلیدی خطبہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں مسلم خاتون ہونے کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ خواتین خود کو اہمیت دیں اور جو احترام کی وہ حقدار ہیں وہ خود کو دیں۔ گھریلو کام کاج اور باہر کام کے دوران یہ ضرور سوچیں کہ آپ کو کیا چاہیے۔ اپنی جیت کے لیے لڑیں اور اپنی قابلیت کے ذریعہ حاصل کریں اس سے آپ میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اور آپ کو معمولی باتوں میں سمجھوتہ کرنا نہیں پڑے گا۔
پروفیسر عامر اللہ خان، ریسرچ ڈائرکٹر، سی ڈی پی پی اور پینل ڈسکشن کے ماڈریٹر نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں بالخصوص خواتین کے مسائل خالصتاً جذباتی مسئلہ بن سکتے ہیں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم گہرائی میں جا کر شواہد اور ڈیٹا تلاش کریں۔جناب اسامہ منظر، بانی ڈیف نے مواد کو تعمیری طور پر استعمال کرنے پر زور دیا۔ پروفیسر افروز عالم، سوشل ورک، مانو؛ حسینہ کاربیہ، بانی، اِمپلس، این جی او نیٹ ورک نے بھی پہلے مباحثے کے دوران خطاب کیا۔
دوپہر میں پینل مباحثہ ”میڈیااور صنف: مسلم خواتین کی نمائندگی“ میں محترمہ عارفہ خانم، سینئر ایڈیٹر ، دی وائر؛ محترمہ فاطمہ خان، دی کوئنٹ ؛ محترمہ غزالہ وہاب، پروفیسر احتشام احمد خان، ڈین اسکول برائے ترسیل عامہ و صحافت اور نے حصہ لیا۔ محترمہ سوما وادھوا، فیلو، انڈیا ڈیولپمنٹ فاﺅنڈیشن اس کی ماڈریٹر تھیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے محترمہ عارفہ خانم نے ڈیجیٹل میڈیا کو لبرل اور جمہوری قرار دیا۔ انہوں نے پسماندہ طبقے کو مزید کوریج دینے کی وکالت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ انفرادی بہادری کا وقت نہیں ہے۔
افتتاحی سیشن میں محترمہ ناہیہ حسین، نائب صدر (پبلک پالیسی) سی ڈی پی پی نے کانفرنس کے موضوع کے متعلق تفصیلات فراہم کیں۔ محترمہ نغمہ ملا، سی ای او، ایڈیلگیونے کہا کہ این جی اوز خواتین کو مالیہ فراہم کرنے کی بات کرتی ہیں لیکن اگر دنیا بھر کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے مالیہ فراہم کیا جاتا ہے تو اس میں محض 4 فیصد حصہ خواتین کو ملتا ہے اور ہندوستان کی حالت اس سے بہتر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو موقع نہیں ملتا اگر انہیں موقع ملے تو بہتر مظاہرہ کرسکتی ہیں۔
پروفیسر شاہدہ مرتضیٰ، ڈائرکٹر، مرکز برائے مطالعاتِ نسواں نے کہا کہ محض پالیسی بنانا کافی نہیں ہے۔ خواتین کی با اختیاری کے لیے رسم و رواج اور اس کے ذریعہ ہو رہے خواتین کے استحصال پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ انہوں نے خواتین کے مختلف مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین کے کام میں معمولی نقص پر بھی انہیں پریشان کیا جاتا ہے۔
محترمہ فاطمہ خان، کوئنٹ نے بتایا کہ موجودہ دور کے فرقہ وارانہ ماحول میں مسلمان خواتین نہ صرف غیروں کے ہاتھوں پریشان ہو رہے ہیں بلکہ خود اپنی قوم میں بھی انہیں مسائل کا سامنا ہے۔ محترمہ انجنا دیواکرنے ابتدائی پروگرام کی کاروائی چلائی۔ ڈاکٹر محمد یوسف خان، پرنسپل پالی ٹیکنیک کی قرات کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔
پروفیسر فریدہ صدیقی، ڈین اسکول برائے فنون و سماجی علوم، مانو؛ ”سماجی علوم کے مسائل پر تحقیق کے لیے کثیر موضوعاتی نقطہ نظر“ پر خطاب کیا۔