تیسری قومی اردو سوشل سائنس کانگریس


  • -
  • Saiyid Hamid Library Auditorium

Contact Person
  • proffice@manuu.edu.in

Event Description

دارالحکمہ“ کے تراجم کے باعث یوروپ میں نشاة ثانیہ کا آغاز
مانو میں سماجی علوم کانگریس۔ پروفیسر عبید اللہ فلاحی، پروفیسر ایوب خان، پروفیسر رحمت اللہ و پروفیسر عشرت عالم کے خطاب
خلیفہ مامون رشید کے دور میں بغداد میں قائم ادارہ ”دارالحکمہ“ میں مختلف زبانوں بشمول سنسکرت سے بھی تراجم کیے گئے جس سے کئی علوم کا احیاءہوا اور دنیا اس سے واقف بھی ہوئی۔ انہیں کتب کے تراجم کی بدولت یوروپ میں نشاة ثانیہ آئی۔ لیکن عمومی طور پر بڑے بڑے یوروپی ماہرین نے سماجی علوم میں یا تو مسلم دنیا اور ہندوستان کی خدمات کو فراموش کردیا ہے یا پھر اپنے ایجنڈے کے تحت قرآن و حدیث کی تشریح کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر عبید اللہ فہد فلاحی، صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے  27 نومبر کو  تیسری قومی اردو سماجی علوم کانگریس کے افتتاحی اجلاس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کر تے ہوئے کیا۔ انہوں نے سماجی علوم کو یورپی نظریات اور استعماری ایجنڈے سے پاک کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں منعقدہ اس کانگریس کا موضوع ”21 ویں صدی میں سماجی علوم: اندیشے اور چیلنجس“ جسے مرکز برائے فروغِ علوم (سی پی کے یو) اور اسکول برائے فنون و سماجی علوم منعقد کر رہے ہیں۔ پروفیسر ایوب خان، پرو وائس چانسلر نے صدارت کی۔
پروفیسرفلاحی نے مستشرقین کی علمی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے اسلام کی غلط تصویر پیش کی۔ مسلم علماءاور زعما کی محبتوں کے باوجود مستشرقین کی نیت میں فتور رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سماجی سائنسدانوں کی غلطی یہ ہے کہ کسی بھی مسئلہ کا تجزیہ کرتے وقت یا نتیجہ اخذ کرتے وقت وہ یوروپی ماہرین کی آراءکو اصول بناتے ہیں۔ جبکہ ہندوستان اور یوروپ کے معاشرے پوری طرح جدا جدا ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے بہترین دماغ ٹکنالوجی سے جڑ کر اکثر بیرونی ممالک ترک وطن کرجاتے ہیں جس سے ملک کے مسائل سمجھنے میں خاصی دشواری ہوتی ہے اور کئی مسائل کے حل نکل نہیں پاتے۔ کچھ لوگوں کو یہاں رہ کر اپنی ملک کی خدمت کرنی ہوگی تاکہ ملک ترقی کرسکے۔
پروفیسر ایوب خان نے صدارتی تقریر میں کہا کہ سائنسی نظریہ کے ساتھ سماجی علوم کا تجزیہ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائنس میں اصول سیدھے ہوتے ہیں جبکہ سماجی علوم میں مسائل پیچیدہ ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں جب تک میدان میں تحقیق نہ کی جائے اس کو سلجھانا مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے سماجی علوم کانگریس کے انعقاد کے لیے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اردو میں علوم کے فروغ کے خواہشمند ہیں۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، رجسٹرار انچارج و کنوینر کانگریس نے خیر مقدمی خطاب کرتے ہوئے موضوع کے متعلق کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ان کے ہند آریائی زبانوں کے اختلاط سے ایک لشکری زبان بنی جو آج اردو کہلاتی ہے۔ حیدرآباد میں اسے سرکاری زبان کا بھی درجہ دیا گیا۔ لیکن آزادی کے بعد اس سے پہلو تہی کی گئی۔ دینی مدارس نے اسے فروغ دیا۔ گجرال کمیٹی کی سفارشات پر اردو یونیورسٹی کے قیام کے باعث اس میں مزید فروغ ہو رہاہے اور ڈاکٹر اسلم پرویز،و ائس چانسلر کی کاوشوں سے اسے مزید ترقی دینے سماجی علوم کانگریس کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ پروفیسر رحمت اللہ نے ان اشعار کے ذریعہ اردو، سماجی علوم، کانگریس اور ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی قیادت کو خراج پیش کرتے ہوئے شرکاءسے زبردست داد وصول کی۔ زباں میں مٹھاس اور خوشبو نہ ہوتی:: زباں آپ کی گریہ اردو نہ ہوتی؛ سماجی مسائل کبھی حل نہ ہوتے:: اگر درس و تحقیق اکمل نہ ہوتے؛ ہے اردو کی اس کانگریس کا یہ مقصد:: سماجی علوم اور فن کا بڑھے قد؛ قیادت جو مانو کی اسلم نہ کرتے:: یہ اجلاس اس طرح ذیشاں نہ ہوتے۔
پروفیسر عشرت عالم، شعبہ ¿ تاریخ، اے ایم یو نے لسانی تاریخ پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ یونان میں سب سے پہلے حروف تہجی کا آغاز ہوتا ہے۔ یہیں سے سارے عالم میں یہ پھیلتے چلے گئے۔ نسلی امتیاز کا معیار بھی زبان ہی تھا۔ یعنی مخصوص زبان بولنے والے دوسروں سے بہتر ہیں۔ لیکن تعلیم کے فروغ نے اس بات کو ختم کردیا۔ آج سب اپنی جگہ برابر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی سامراج کے باعث ہندوستان کو بری طرح سماجی و معاشی نقصان ہوا لیکن پہلی مرتبہ انگریزوں ہی نے 1857 یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا۔ رورکی یونیورسٹی قائم کی۔ جس نے ہندوستانیوں کو اعلیٰ تعلیم سے جوڑ دیا۔
اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقیوم، اسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ ¿ نظم و نسق عامہ کی کتاب ”انسانی حقوق“ اور ڈاکٹر محمد غوث، اسسٹنٹ پروفیسر (سنگا ریڈی) کی کتاب ”ریاست اور اقلیت: غربت اور حکمرانی“ کا رسم اجرا عمل میں آیا۔ ڈاکٹر عابد معز، کوآرڈینیٹر کانگریس نے انتظامات کی نگرانی کی۔ ڈاکٹر دانش معین، صدر شعبہ ¿ تاریخ نے شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر ثمینہ تابش، اسسٹنٹ پروفیسر عربی نے کارروائی چلائی۔ جناب عاطف عمران، استاد، شعبہ ¿ اسلامک اسٹڈیز کی تلاوت کلام پاک سے جلسے کا آغاز ہوا۔


Download