علاقۂ دکن جس پر کم ہی مطالعہ کیا گیا اس کا مکمل تجزیہ کرنے کا صحیح موقع اس وقت ہاتھ آیا جب گیارہویں پلان کے اختتام پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیور سٹی کے حیدرآباد میں واقع ہیڈ کوارٹر کو 2012 کو ‘‘ مر کز برائے مطالعات دکن ’’تفویض کیا گیا ۔اس طرح کے منفرد مرکز کا قیام، جو ملک میں اپنی نوعیت کا واحد مرکز ہے مانو کے سابق وائس چانسلر پرو فیسر محمد میاں کی بصیرت اور جرات مندانہ اقدام کا نتیجہ ہے جنھوں نے دکن کے قلب یعنی حیدرآباد میں ایک ایسے مرکز کے قیام کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کیا ۔
مانو کو جب یہ باوقار مرکز دیا گیا تو ہندوستان کے معروف مورخ ، محقق اور مصنف ہارون خاں شیروانی جیسے موزوں نام سے اسے موسوم کیا گیا جنہوں نے دکن کا مختلف پہلوؤں سے مطالعہ کرنے میں انتہائی اہم کام کیا ہے۔ اس شخصیت سے موسوم کرکے نہ صرف مرکز کو ایک نمایاں کردار عطا کیا گیا بلکہ دکن پر انتھک اور بے مثال خدمات انجام دینے والے ایک عظیم ماہر تعلیم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔
مرکز کے 11 ستمبر 2012 کو باضابطہ افتتاح سے قبل ماہرین دکنیات اور تحقیق و تدریس کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات کے ساتھ ایک وسیع مذاکراتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں مرکز کے مجوزہ اغراض و مقاصد پر مباحث ہوئے ۔ ان مباحث کے ذریعہ مرکز کے لیے مستقبل کے منصو بے تیار کیے گئے۔
مرکز کا ویژن اور مشن اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے کہ تحقیق کے ایسے خصوصی اور بین شعبہ جاتی گوشوں پر توجہ مرکوز کی جائے جو روایتی تعلیمی ڈھانچے میں ابھی تک مطالعے کے لئے جگہ نہ پاسکے ۔ ان توقعات کے مطابق جن کی بنیاد پر ایچ۔ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن کا دائرہ کار تشکیل دیا گیا ہے اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیور سٹی کےتعلیمی خاکۂ عمل میں طئے شدہ راہ فکر کی تعبیر نو کے لیے مرکز نے اپنے حدود میں فطری علوم سے لے کر سماجی و بشری علوم کےمیدانوں میں مطالعےکا نشانہ مقرر کیا ہے۔ مرکز کی وسیع بنیاد مطالعے کے مختلف میدانوں اور شعبہ جات کا احاطہ کرتی ہے جن میں آثاریاتی ، تاریخی ، جغرافیائی ، ارضیاتی ، نقشہ جاتی،انتظامی ، سماج معاشی، مذہبی ،ثقافتی اور ادب جیسے مضامین کا مطالعہ شامل ہے ۔ جس سے صحت مند تعلیمی معیارات پیدا ہوں گے۔