تعلیم کا مقصد محض نوکری کا حصول نہیں بلکہ سماجی مسائل کے حل کی تلاش ہونا چاہیے
اردو یونیورسٹی میں قومی اردو سماجی علوم کانگریس کا اختتام۔ پروفیسر محمد طالب، پروفیسر محمد مزمل، ڈاکٹر محمدغوث ،پروفیسر رحمت اللہ و دیگر کے خطاب
حیدرآباد، 24د سمبر (پریس نوٹ) تعلیم کا مقصد صرف نوکری کا حصول نہیں ہوتا۔ تعلیم کے حصول کا مقصد سماج کے مسائل کے حل کے لیے شعوری کوشش کرنا ہے۔ عمومی طور پر سماجیات پڑھائی جاتی ہے سماجیات کے بغیر۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کو سمجھانے کے لیے ان کو پراجیکٹ وغیرہ میں شامل کریں۔ جامعہ ملیہ میں ایک ایسا کورس تیار کیا گیا تھا جس میں طلبہ کو خود اپنا نصاب متعین کرنے کا موقع ملا۔ اس میں وہ خود اپنی کتب چنتے اور کچھ فیلڈ ورک بھی کرتے۔ اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مختلف ہنر کے ماہرین کو بلاکر ان سے طلبہ کو وہ ہنر سکھائے جاتے تھے جیسے تالے بنانا یا دیگر کام ۔ اس طرح کے کورس کا مقصد طلبہ کو بہتر اندازمیں مضمون سمجھانا تھا۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر محمد طالب ، آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز ، آکسفورڈ یونیورسٹی ، برطانیہ نے کل شام چوتھی قومی اردو سماجی علوم کانگریس کے اختتامی اجلاس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی آن لائن خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانگریس کا عنوان ”سوشیل سائنسس: انحطاط اور احیائ“ تھا۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج، و کنوینرکانگریس و ڈین سماجی علوم نے صدارت کی۔
پروفیسر طالب نے ڈاکٹر ذاکر حسین کی تعلیمی پالیسی "زندگی کے لیے تعلیم بذریعہ زندگی “ کے حوالے سے کہا کہ جب معاشرہ سوشیالوجی (سماجیات) کا میدان بن جاتا ہے تو ، سوشیالوجی ترقی کرتی ہے اور جب سوشیالوجی سیکھ جاتے ہیں تو طلباءمعاشرتی شعور کو فروغ دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس تصور پر عمل کرنے میں بہت سارے چیلنجز ہیں۔ انہوں نے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعے تفصیلی لیکچر دیا۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، نے اپنے صدارتی خطاب میں بتایا کہ یونیورسٹی کی مجلس تعلیمی نے ہر سال اردو سائنس کانگریس اور اردو سماجی علوم کانگریس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے اور گذشتہ چار برسوں سے اردو یونیورسٹی میں دونوں کا باقاعدگی کے ساتھ انعقاد کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے دوران اچھے موضوعات اور افکار پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ اگر ہم ان مقالوں پر توجہ دیتے ہیں تو یقینا ہم معاشرے سے کئی مسائل دور کرپائیں گے اور سماجی علوم کی بہتر طور پر تدریس کرپائیں گے۔
مہمان اعزازی پروفیسر محمد مزمل، سابق وائس چانسلر، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی، آگرہ اور ایم جے پی روہیلکھانڈ یونیورسٹی، بریلی نے تکنیکی سیشنوں کے موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے انہیں بہترین اور معلومات آفرین قرار دیا۔ انہوں نے موضوعات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نظم ونسق ، انتظامیہ اور حکمرانی تینوں کا تعلق سیاسیات اور نظم و نسق عامہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے تفصیل سے تمام موضوعات کا احاطہ کیا۔ انہوں نے آج کے اہم موضوع کووڈ 19 کا ویکسین پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ کے صدر نے خود کو ویکسین لگواکر اس کی تشہیر کی تاکہ لوگوں میں بیداری آئے اور لوگ اس سے استفادہ کریں۔ یہ ہے سماجیات، یہ ہے تشہیر جو سماجی علوم سے ہے۔ اس لیے سماجی علوم و لسانیات بھی سائنس سے جڑے ہیں ۔
ایک اور مہمانِ اعزازی ڈاکٹر محمد غوث ، ڈائرکٹرسیکریٹری ، تلنگانہ اردو اکیڈیمی نے کہا کہ اردو اکیڈیمی کی جانب سے سماجی علوم کی کتابیں شائع کرتے ہوئے تلنگانہ کے کالجوں کے طلبہ کو فراہم کرنے کا اقدام کیا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں سماجی انصاف کا نفاذ بری طرح متاثر ہوگیا ہے۔ بطور خاص او بی سیز اور اقلیتوں کو سماجی انصاف پر عدم عمل آوری سے کافی پریشانی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر آفتاب عالم، ایچ آر منیجر اینڈ ویلفیئر آفیسر، بی ایچ ای ایل، جھانسی نے انسانی وسائل ماہر کے لیے درکار مہارتوں پر توجہ دلائی۔ صنعتی انقلاب کے بعد جہاں انسانی حقوق کا دور اور پبلک ریلیشنز کا دورآیا وہیں سوشیل ورک کا آغازہوا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایم ایس ڈبلیو کے طلبہ ایچ آر میں اختصاص چاہتے ہیں تو انہیں مزدور قوانین ، انسانی وسائل کے انتظامیہ، پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ اس میں پی ایف، ای ایس آئی اسکیم وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اپنی ترسیلی مہارت بھی بڑھانی ہوگی۔
پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈین لینگویجس نے خیر مقدم کیا ،کاروائی چلائی اورادب سماجی علوم اور سائنس و ٹکنالوجی کے درمیان لطیف تعلق کی جانب نشاندہی کی۔ ڈاکٹر سید حسن قائد، اسسٹنٹ پروفیسر معاشیات نے پروفیسر محمد مزمل کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر مظفر حسین، اسسٹنٹ پروفیسر سیاسیات نے ڈاکٹر محمد غوث کا اور پروفیسر شاہد رضا ، صدر شعبہ سوشیل ورک نے ڈاکٹر آفتاب عالم کا ، ڈاکٹر کے ایم ضیاءالدین نے پروفیسر محمد طالب کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر سہید میو ، اسسٹنٹ پروفیسرسماجیات نے کانگریس کے متعلق رپورٹ پیش کی۔ پروفیسر شاہدہ، صدر شعبہ ¿ تعلیمات نسواں و شریک کنوینر کے شکریہ پر کانگریس کا اختتام عمل میں آیا۔