Press Release : Feb 01, 2021

Hyderabad,


خواتین کے خلاف بڑھتے تشدد کی روک تھام کے لیے شعور بیداری پر زور
اردو یونیورسٹی میں سلسلہ وار ویبنارس کا اہتمام۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ و دیگر کے خطاب


حیدرآباد، یکم فروری (پریس نوٹ) گھر میں اور عوامی مقامات پر مرد و خواتین کا ایک دوسرے کے لئے احترام ضروری ہے۔ خواتین کے حالات کچھ دہائی قبل آج کی طرح بدتر نہیں تھے۔ اس سلسلہ میں لوگوں کو حساس بنانے کی ضرورت ہے اور اس طرح کے شعور بیداری پروگراموں کا انعقاد صنفی مساوات کے اہداف کے حصول میں بہت کارآمد اور دور رس نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ ، وائس چانسلر انچارج نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، مرکز برائے مطالعاتِ نسواں اور سنٹر فار ڈیولپمنٹ پالیسی اینڈ پریکٹس (سی ڈی پی پی)، حیدرآباد کے زیر اہتمام صنف کی بنیاد پر تشدد کے تدارک اور شعور بیداری کے لیے منعقدہ 16 روزہ ویبنار کے سلسلے کے آخری دن 29 جنوری کو کیا۔ وزارتِ بہبودی ¿ فروغِ خواتین و اطفال کی ہدایت پر ”صنفی عدم مساوات: قانون اور انصاف کی فراہمی کے نظام کے مابین نمایاں فرق“ کے موضوع پر 12تا 29 جنوری 16 دن ویبنار اور مختلف سرگرمیاں منعقد کی گئیں۔ افتتاحی ویبنار میں محترمہ ریکھا شرما، صدر نشین قومی خواتین کمیشن نے کلیدی خطبہ دیا۔ پروفیسر رحمت اللہ نے صنف پر مبنی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہر ایک کو کس طرح اچھا رویہ اپنانا چاہئے تاکہ انصاف کا ماحول پیدا ہوسکے۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود ، رجسٹرار انچارج نے خواتین کے لئے ایک محفوظ ماحول کی ضرورت پر زور دیا اور بتایا کہ صنف پر مبنی تشدد کس طرح ایک سوسائٹی پر لعنت ہے۔ انہوں نے کہا کہ توازن پیدا کرنے کے لئے مرد اور خواتین دونوں کو معاشرے کے اصول و اقدار پر عمل کرنا ہوگا۔
پروفیسر عامر اللہ خان ، ریسرچ ڈائریکٹر ، سی ڈی پی پی ، نے مختلف شعبوں کے بارے میں واضح طور پر بتایا جہاں خواتین کو ان کا حصہ نہیں دیا جاتا اور کہا کہ حقیقی ترقی کے حصول کے لیے خواتین کو تمام شعبوں میں شراکت دار بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ، سول سوسائٹی کی تنظیموں کے اراکین، صنف پر مبنی عدم مساوات کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں۔
اس موقع پر پروفیسر شاہدہ اور پروفیسر عامر اللہ خان کی ادارت اور سی ڈی پی پی کے زیراہتمام شائع کردہ کتاب ”صنف اور شمولیت“ کا پروفیسر رحمت اللہ کے ہاتھوں رسم اجرا عمل میں آئی۔ پروفیسر شاہدہ ، ڈائرکٹر ، سنٹر فار ویمن اسٹڈیز جو ان پروگراموں کی منتظم بھی تھیں نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں خواتین کے لئے آئینی اور قانونی دفعات کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل آوری نہیں ہوپاتی۔ ہمارے آئین میں مساوات ، انصاف اور بھائی چارہ کو خصوصی جگہ حاصل ہے اس کے نفاذ کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر سہید میو ، اسسٹ پروفیسر سماجیات نے شکریہ ادا کیا۔
اس سے قبل ، ویبینار کا افتتاحی اجلاس 12 جنوری ، 2021 کو ہوا تھا۔ اس کے بعد دوسرا ویبنار "ہندوستان میں خواتین کے لئے آئینی اور قانونی دفعات" پر مرکوز تھا۔ آئینی قانون کی ماہر ، پروفیسر وسنتی نموشکوی ، نلسار یونیورسٹی آف لاءنے متعدد آئینی اور قانونی دفعات کے متعلق بتایا محترمہ ممتا رگھوویر، تکنیکی ڈائرکٹر ’بھروسا‘ سنٹر نے POCSO کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ اس سلسلے کی تیسری سرگرمی”ثقافتی ماترس اور جی بی وی“ پر تھا۔ پروفیسر شروتی تمبے ایس بی پی یونیورسٹی ، پونے ، نے پورے معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں ایک وسیع تر تنقیدی جائزہ پیش کیا۔
سیریز میں چوتھے اور پانچویں ویبنارس میں ”جنسیت، بدعنوانی اور میڈیا میں خواتین کی نمائندگی“ پر منعقد ہوا۔ پاپولیشن فرسٹ سے محترمہ ال شاردا ؛ فیمینزم ان انڈیا کی بانی محترمہ جپلین پسریچا اور مصنف ، صحافی جنہیں ہندوستان کی اینرڈ بلائیٹن کہا جاتا ہے مسز موناروز شیلا پریرا اور دی پرنٹ کی محترمہ فاطمہ خان نے اظہار خیال کیا۔
پروفیسر افروز عالم ، صدر شعبہ ¿ سیاست و ڈائرکٹر ، سی ایس ای آئی پی، پروفیسر فریدہ صدیقی ، صدر شعبہ ¿ معاشیات اور پروفیسر سنیم فاطمہ ، ڈین اسکول آف کامرس اینڈ مینجمنٹ نے بالترتیب ویبنار کے دوسرے ، تیسرے ، چوتھے اور پانچویں اجلاس کی صدارت کی۔

 

Press Release : Feb 01, 2021

Hyderabad,


خواتین کے خلاف بڑھتے تشدد کی روک تھام کے لیے شعور بیداری پر زور
اردو یونیورسٹی میں سلسلہ وار ویبنارس کا اہتمام۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ و دیگر کے خطاب


حیدرآباد، یکم فروری (پریس نوٹ) گھر میں اور عوامی مقامات پر مرد و خواتین کا ایک دوسرے کے لئے احترام ضروری ہے۔ خواتین کے حالات کچھ دہائی قبل آج کی طرح بدتر نہیں تھے۔ اس سلسلہ میں لوگوں کو حساس بنانے کی ضرورت ہے اور اس طرح کے شعور بیداری پروگراموں کا انعقاد صنفی مساوات کے اہداف کے حصول میں بہت کارآمد اور دور رس نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ ، وائس چانسلر انچارج نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، مرکز برائے مطالعاتِ نسواں اور سنٹر فار ڈیولپمنٹ پالیسی اینڈ پریکٹس (سی ڈی پی پی)، حیدرآباد کے زیر اہتمام صنف کی بنیاد پر تشدد کے تدارک اور شعور بیداری کے لیے منعقدہ 16 روزہ ویبنار کے سلسلے کے آخری دن 29 جنوری کو کیا۔ وزارتِ بہبودی ¿ فروغِ خواتین و اطفال کی ہدایت پر ”صنفی عدم مساوات: قانون اور انصاف کی فراہمی کے نظام کے مابین نمایاں فرق“ کے موضوع پر 12تا 29 جنوری 16 دن ویبنار اور مختلف سرگرمیاں منعقد کی گئیں۔ افتتاحی ویبنار میں محترمہ ریکھا شرما، صدر نشین قومی خواتین کمیشن نے کلیدی خطبہ دیا۔ پروفیسر رحمت اللہ نے صنف پر مبنی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہر ایک کو کس طرح اچھا رویہ اپنانا چاہئے تاکہ انصاف کا ماحول پیدا ہوسکے۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود ، رجسٹرار انچارج نے خواتین کے لئے ایک محفوظ ماحول کی ضرورت پر زور دیا اور بتایا کہ صنف پر مبنی تشدد کس طرح ایک سوسائٹی پر لعنت ہے۔ انہوں نے کہا کہ توازن پیدا کرنے کے لئے مرد اور خواتین دونوں کو معاشرے کے اصول و اقدار پر عمل کرنا ہوگا۔
پروفیسر عامر اللہ خان ، ریسرچ ڈائریکٹر ، سی ڈی پی پی ، نے مختلف شعبوں کے بارے میں واضح طور پر بتایا جہاں خواتین کو ان کا حصہ نہیں دیا جاتا اور کہا کہ حقیقی ترقی کے حصول کے لیے خواتین کو تمام شعبوں میں شراکت دار بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ، سول سوسائٹی کی تنظیموں کے اراکین، صنف پر مبنی عدم مساوات کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں۔
اس موقع پر پروفیسر شاہدہ اور پروفیسر عامر اللہ خان کی ادارت اور سی ڈی پی پی کے زیراہتمام شائع کردہ کتاب ”صنف اور شمولیت“ کا پروفیسر رحمت اللہ کے ہاتھوں رسم اجرا عمل میں آئی۔ پروفیسر شاہدہ ، ڈائرکٹر ، سنٹر فار ویمن اسٹڈیز جو ان پروگراموں کی منتظم بھی تھیں نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں خواتین کے لئے آئینی اور قانونی دفعات کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل آوری نہیں ہوپاتی۔ ہمارے آئین میں مساوات ، انصاف اور بھائی چارہ کو خصوصی جگہ حاصل ہے اس کے نفاذ کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر سہید میو ، اسسٹ پروفیسر سماجیات نے شکریہ ادا کیا۔
اس سے قبل ، ویبینار کا افتتاحی اجلاس 12 جنوری ، 2021 کو ہوا تھا۔ اس کے بعد دوسرا ویبنار "ہندوستان میں خواتین کے لئے آئینی اور قانونی دفعات" پر مرکوز تھا۔ آئینی قانون کی ماہر ، پروفیسر وسنتی نموشکوی ، نلسار یونیورسٹی آف لاءنے متعدد آئینی اور قانونی دفعات کے متعلق بتایا محترمہ ممتا رگھوویر، تکنیکی ڈائرکٹر ’بھروسا‘ سنٹر نے POCSO کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ اس سلسلے کی تیسری سرگرمی”ثقافتی ماترس اور جی بی وی“ پر تھا۔ پروفیسر شروتی تمبے ایس بی پی یونیورسٹی ، پونے ، نے پورے معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں ایک وسیع تر تنقیدی جائزہ پیش کیا۔
سیریز میں چوتھے اور پانچویں ویبنارس میں ”جنسیت، بدعنوانی اور میڈیا میں خواتین کی نمائندگی“ پر منعقد ہوا۔ پاپولیشن فرسٹ سے محترمہ ال شاردا ؛ فیمینزم ان انڈیا کی بانی محترمہ جپلین پسریچا اور مصنف ، صحافی جنہیں ہندوستان کی اینرڈ بلائیٹن کہا جاتا ہے مسز موناروز شیلا پریرا اور دی پرنٹ کی محترمہ فاطمہ خان نے اظہار خیال کیا۔
پروفیسر افروز عالم ، صدر شعبہ ¿ سیاست و ڈائرکٹر ، سی ایس ای آئی پی، پروفیسر فریدہ صدیقی ، صدر شعبہ ¿ معاشیات اور پروفیسر سنیم فاطمہ ، ڈین اسکول آف کامرس اینڈ مینجمنٹ نے بالترتیب ویبنار کے دوسرے ، تیسرے ، چوتھے اور پانچویں اجلاس کی صدارت کی۔