مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
Hyderabad,
مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
اُردو یونیورسٹی میں پروفیسر فیضان مصطفی کا یومِ آزاد میموریل لیکچر۔ پروفیسر عین الحسن و دیگر کے خطاب
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد اتحاد کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ وہ ایک دور اندیش مفکر تھے۔ انہیں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد دونوں ملکوں میں موجود اقلیتوں ہندوستان میں مسلمان اور پاکستان میں ہندوﺅں کے مسائل کا ادراک تھا۔ اسی لیے انہوں نے پاکستان بننے تک بھی تقسیم کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے کانگریس ورکنگ کمیٹی میں تقسیم کے خلاف اپنا ووٹ دیا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی، وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی آف لاءنے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد یادگاری خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ خطبہ کا عنوان ”مولانا ابوالکلام آزاد اور مذہبی و ثقافتی تنوع کا آئینی نظم“ تھا۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ یومِ آزاد تقاریب کا آغاز مانو ماڈل اسکول ، فلک نما، حیدرآباد میں 3 نومبر کو ایک رنگا رنگ پروگرام کے ساتھ ہوا تھا۔
پروفیسر فیضان مصطفی نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے آزاد ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کے لیے مولانا آزاد کے خیالات سے استفادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دستور میں شامل شق 30 کے تحت اقلیتیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں۔ مولانا آزاد نے قرآن مجید کے پیغام کو اپناکر اپنے خیالات کو ترتیب دیا تھا اس سلسلے میں مذہبی نقطہ ¿ نظر سے بھی ان پر تحقیق ہونی چاہیے۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے آج ٹویٹ کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام کو یاد کیا۔ مولانا ایک عظیم شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی آواز لوگوں کو الہلال کے ذریعہ پھر البلاغ کے ذریعہ پہنچائی۔ ان کا یہ درد تھا جو انہوں نے ان اخبارات کے ذریعہ پیش کیا اور وہ درد بڑھتا ہی رہا۔ مولانا کی اہلیہ بیمار ہوگئیں تو انہیں جیل سے گھر جانے کا موقع مل سکتا تھا لیکن انہوں نے جنگ آزادی کے پیش نظر انگریز افسران سے درخواست کرنا گوارہ نہ کیا۔ مولانا آزاد تنوع کے حامی تھے۔
ڈاکٹر اے ناگیندر ریڈی، ڈائرکٹر سالار جنگ میوزیم نے کہا کہ وہ اردو یونیورسٹی سے یادداشتِ مفاہمت کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مانو کے طلبہ کو میوزیم میں ایک ماہ تک مفت داخلہ دینے کا اعلان کیا۔ اس سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں کے طلبہ بطور خاص سالار جنگ لائبریری میں موجود نادر و نایاب مخطوطات پر تحقیق کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میوزیم میں جلد ہی ایک اسلامی گیلری قائم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مانو سے تعاون طلب کیا۔
ڈاکٹر ایس چنم ریڈی، ڈائرکٹر، این آئی ٹی ایچ ایم، حیدرآباد نے کہا کہ پرانے کے دور کے طلبہ میں اور آج کے طلبہ میں بڑا فرق ہے۔ آج کے طلبہ کو تقریباً معلومات ان کے موبائل پر دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی ذرائع کا تحفظ اور کفایت کے ساتھ استعمال کرنے سے فنڈس کی بچت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ میں بارش کے پانی کے تحفظ اور الکٹریسٹی کی بچت کے ذریعہ کافی فنڈ بچانے میں کامیاب ہیں۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے کہا کہ مولانا آزاد مفکرِ تعلیم تھے۔ مفکر تعلیم کا مرتبہ ماہر تعلیم سے بھی اعلیٰ ہے۔ ماہر تعلیم، تعلیمی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے تعلیم کی ترقی کے لیے کوشش کرتا ہے جبکہ مفکر تعلیم، تعلیم کے نظام کو ہی متعین کرتا ہے۔ اس طرح ہندوستان میں تعلیم کا موجودہ نظام دراصل مولانا آزاد کی ہی دین ہے۔ مزید یہ کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020کے مختلف پہلو مولانا آزاد کے تعلیم سے متعلق خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر مولانا کو خراج پیش کرتے ہوئے چند اشعار سنائے۔ آﺅ مانو میں منائیں اسی آزاد کی یاد:: جس کے پیغام سے مٹتا ہے ہر اک بغض و عناد، جس نے اس ملک میں تعلیم کو وسعت دی ہے:: جس کی سوچوں میں ہر اک لمحہ رہا سب کا مفاد، جس کا باطن بھی تھا ظاہر کی طرح آئینہ:: جس کے کردار میں اور قول میں کچھ تھا نہ تضاد، اس کے احوال سنائیں تو محبت جاگے:: جس نے چاہا نہیں بھارت میں کبھی فتنہ فساد، یومِ تعلیم میںآج آﺅ انہیں یاد کریں:: جس کے رستے پہ جو چلتے ہیں وہ پاتے ہیں مراد۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی نے خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر احمد خان، کنوینر یومِ آزاد تقاریب نے کاروائی چلائی اور پروفیسر فیضان مصطفی کا تعارف پیش کیا۔ جناب معراج احمد، رکن کور کمیٹی نے مختلف مقابلوں میں انعامات حاصل کرنے والے طلبہ کے نام پیش کیے۔ ڈاکٹر عاطف عمران کی قرا ت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔
اردو یونیورسٹی میں مسابقتی مباحثہ کا انعقاد
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے حصہ کے طور پر مسابقتی مباحثہ کا 9 نومبر کو انعقاد عمل میں آیا۔ یہ مقابلہ گوگل میٹ کے ذریعہ آن لائن کیا گیا جس کی عنوان ”ٹکنالوجی کا معاشرے کے ثقافتی اقدار پر نقصاندہ اثر “ تھا۔ پروفیسر عبدالسمیع صدیقی، کوآرڈینیٹر کے بموجب مباحثہ کا ابتدائی راﺅنڈ بموضوع”سوشیل میڈیا آن لائن سیکھنے کا مثبت ذریعہ“ کا تین زبانوں اردو، ہندی اور انگریزی میں 28 اکتوبر کو انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اردو میں آصف جاوید، ڈی ایل ایڈ کو پہلا؛ شاہ عالم خان، ایم اے کو دوسرا اور محمد بلال، بی اے کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ ہندی میں شاہنواز عالم، بی ایڈ کو پہلا، آرزو خاتون، ڈی ایل ایڈ کو دوسرا اور محمد محفوظ عالم کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ جبکہ انگریزی میں انتصار فاطمہ، ایم ایڈ کو پہلا؛ رخسانہ پروین، بی ایڈ کو دوسرا محمد کاشف، بی ٹیک کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی اور ڈاکٹر احمد خان، کنوینر کمیٹی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ڈاکٹر محمد اکبر، جناب غفران برکاتی اور محترمہ عصمت فاطمہ نے اردو کے ججس کے فرائض انجام دیئے۔ ہندی میں ڈاکٹر بی ایل مینا، ڈاکٹر عبدالباسط انصاری اور جناب فہیم انور ججس تھے۔
اردو یونیورسٹی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے گوشہ کا افتتاح
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد تقاریب کے سلسلے میں 9 نومبر کو سید حامد مرکزی کتب خانہ میں ”گوشہ ¿ آزاد“ کا پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر کے ہاتھوں افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد پر ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ اس میں بڑی تعداد میں مولانا آزاد کی لکھی ہوئی کتابیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ واری الہلال اور البلاغ کی کاپیاںبھی مشاہدے کے لیے رکھی گئیں۔ گوشے میں مجاہد آزادی کی کمیاب تصاویر اور مولانا آزاد کے لکھے ہوئے خطوط بھی موجود ہیں۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ مولانا آزاد ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان تھے۔ انہیں ایک زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں اردو، عربی اور فارسی بھی شامل ہیں۔ وہ گاندھیائی خیالات سے متاثر تھے اور وہ مختلف مذاہب، ذاتوں اور قوموں کے ایک ساتھ رہنے کی وکالت کرتے تھے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر؛ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج اور مختلف اسکولوں کے ڈینس بھی موجود تھے۔
مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
Hyderabad,
مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
اُردو یونیورسٹی میں پروفیسر فیضان مصطفی کا یومِ آزاد میموریل لیکچر۔ پروفیسر عین الحسن و دیگر کے خطاب
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد اتحاد کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ وہ ایک دور اندیش مفکر تھے۔ انہیں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد دونوں ملکوں میں موجود اقلیتوں ہندوستان میں مسلمان اور پاکستان میں ہندوﺅں کے مسائل کا ادراک تھا۔ اسی لیے انہوں نے پاکستان بننے تک بھی تقسیم کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے کانگریس ورکنگ کمیٹی میں تقسیم کے خلاف اپنا ووٹ دیا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی، وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی آف لاءنے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد یادگاری خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ خطبہ کا عنوان ”مولانا ابوالکلام آزاد اور مذہبی و ثقافتی تنوع کا آئینی نظم“ تھا۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ یومِ آزاد تقاریب کا آغاز مانو ماڈل اسکول ، فلک نما، حیدرآباد میں 3 نومبر کو ایک رنگا رنگ پروگرام کے ساتھ ہوا تھا۔
پروفیسر فیضان مصطفی نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے آزاد ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کے لیے مولانا آزاد کے خیالات سے استفادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دستور میں شامل شق 30 کے تحت اقلیتیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں۔ مولانا آزاد نے قرآن مجید کے پیغام کو اپناکر اپنے خیالات کو ترتیب دیا تھا اس سلسلے میں مذہبی نقطہ ¿ نظر سے بھی ان پر تحقیق ہونی چاہیے۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے آج ٹویٹ کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام کو یاد کیا۔ مولانا ایک عظیم شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی آواز لوگوں کو الہلال کے ذریعہ پھر البلاغ کے ذریعہ پہنچائی۔ ان کا یہ درد تھا جو انہوں نے ان اخبارات کے ذریعہ پیش کیا اور وہ درد بڑھتا ہی رہا۔ مولانا کی اہلیہ بیمار ہوگئیں تو انہیں جیل سے گھر جانے کا موقع مل سکتا تھا لیکن انہوں نے جنگ آزادی کے پیش نظر انگریز افسران سے درخواست کرنا گوارہ نہ کیا۔ مولانا آزاد تنوع کے حامی تھے۔
ڈاکٹر اے ناگیندر ریڈی، ڈائرکٹر سالار جنگ میوزیم نے کہا کہ وہ اردو یونیورسٹی سے یادداشتِ مفاہمت کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مانو کے طلبہ کو میوزیم میں ایک ماہ تک مفت داخلہ دینے کا اعلان کیا۔ اس سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں کے طلبہ بطور خاص سالار جنگ لائبریری میں موجود نادر و نایاب مخطوطات پر تحقیق کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میوزیم میں جلد ہی ایک اسلامی گیلری قائم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مانو سے تعاون طلب کیا۔
ڈاکٹر ایس چنم ریڈی، ڈائرکٹر، این آئی ٹی ایچ ایم، حیدرآباد نے کہا کہ پرانے کے دور کے طلبہ میں اور آج کے طلبہ میں بڑا فرق ہے۔ آج کے طلبہ کو تقریباً معلومات ان کے موبائل پر دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی ذرائع کا تحفظ اور کفایت کے ساتھ استعمال کرنے سے فنڈس کی بچت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ میں بارش کے پانی کے تحفظ اور الکٹریسٹی کی بچت کے ذریعہ کافی فنڈ بچانے میں کامیاب ہیں۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے کہا کہ مولانا آزاد مفکرِ تعلیم تھے۔ مفکر تعلیم کا مرتبہ ماہر تعلیم سے بھی اعلیٰ ہے۔ ماہر تعلیم، تعلیمی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے تعلیم کی ترقی کے لیے کوشش کرتا ہے جبکہ مفکر تعلیم، تعلیم کے نظام کو ہی متعین کرتا ہے۔ اس طرح ہندوستان میں تعلیم کا موجودہ نظام دراصل مولانا آزاد کی ہی دین ہے۔ مزید یہ کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020کے مختلف پہلو مولانا آزاد کے تعلیم سے متعلق خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر مولانا کو خراج پیش کرتے ہوئے چند اشعار سنائے۔ آﺅ مانو میں منائیں اسی آزاد کی یاد:: جس کے پیغام سے مٹتا ہے ہر اک بغض و عناد، جس نے اس ملک میں تعلیم کو وسعت دی ہے:: جس کی سوچوں میں ہر اک لمحہ رہا سب کا مفاد، جس کا باطن بھی تھا ظاہر کی طرح آئینہ:: جس کے کردار میں اور قول میں کچھ تھا نہ تضاد، اس کے احوال سنائیں تو محبت جاگے:: جس نے چاہا نہیں بھارت میں کبھی فتنہ فساد، یومِ تعلیم میںآج آﺅ انہیں یاد کریں:: جس کے رستے پہ جو چلتے ہیں وہ پاتے ہیں مراد۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی نے خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر احمد خان، کنوینر یومِ آزاد تقاریب نے کاروائی چلائی اور پروفیسر فیضان مصطفی کا تعارف پیش کیا۔ جناب معراج احمد، رکن کور کمیٹی نے مختلف مقابلوں میں انعامات حاصل کرنے والے طلبہ کے نام پیش کیے۔ ڈاکٹر عاطف عمران کی قرا ت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔
اردو یونیورسٹی میں مسابقتی مباحثہ کا انعقاد
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے حصہ کے طور پر مسابقتی مباحثہ کا 9 نومبر کو انعقاد عمل میں آیا۔ یہ مقابلہ گوگل میٹ کے ذریعہ آن لائن کیا گیا جس کی عنوان ”ٹکنالوجی کا معاشرے کے ثقافتی اقدار پر نقصاندہ اثر “ تھا۔ پروفیسر عبدالسمیع صدیقی، کوآرڈینیٹر کے بموجب مباحثہ کا ابتدائی راﺅنڈ بموضوع”سوشیل میڈیا آن لائن سیکھنے کا مثبت ذریعہ“ کا تین زبانوں اردو، ہندی اور انگریزی میں 28 اکتوبر کو انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اردو میں آصف جاوید، ڈی ایل ایڈ کو پہلا؛ شاہ عالم خان، ایم اے کو دوسرا اور محمد بلال، بی اے کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ ہندی میں شاہنواز عالم، بی ایڈ کو پہلا، آرزو خاتون، ڈی ایل ایڈ کو دوسرا اور محمد محفوظ عالم کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ جبکہ انگریزی میں انتصار فاطمہ، ایم ایڈ کو پہلا؛ رخسانہ پروین، بی ایڈ کو دوسرا محمد کاشف، بی ٹیک کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی اور ڈاکٹر احمد خان، کنوینر کمیٹی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ڈاکٹر محمد اکبر، جناب غفران برکاتی اور محترمہ عصمت فاطمہ نے اردو کے ججس کے فرائض انجام دیئے۔ ہندی میں ڈاکٹر بی ایل مینا، ڈاکٹر عبدالباسط انصاری اور جناب فہیم انور ججس تھے۔
اردو یونیورسٹی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے گوشہ کا افتتاح
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد تقاریب کے سلسلے میں 9 نومبر کو سید حامد مرکزی کتب خانہ میں ”گوشہ ¿ آزاد“ کا پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر کے ہاتھوں افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد پر ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ اس میں بڑی تعداد میں مولانا آزاد کی لکھی ہوئی کتابیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ واری الہلال اور البلاغ کی کاپیاںبھی مشاہدے کے لیے رکھی گئیں۔ گوشے میں مجاہد آزادی کی کمیاب تصاویر اور مولانا آزاد کے لکھے ہوئے خطوط بھی موجود ہیں۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ مولانا آزاد ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان تھے۔ انہیں ایک زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں اردو، عربی اور فارسی بھی شامل ہیں۔ وہ گاندھیائی خیالات سے متاثر تھے اور وہ مختلف مذاہب، ذاتوں اور قوموں کے ایک ساتھ رہنے کی وکالت کرتے تھے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر؛ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج اور مختلف اسکولوں کے ڈینس بھی موجود تھے۔
مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
Hyderabad,
مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
اُردو یونیورسٹی میں پروفیسر فیضان مصطفی کا یومِ آزاد میموریل لیکچر۔ پروفیسر عین الحسن و دیگر کے خطاب
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد اتحاد کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ وہ ایک دور اندیش مفکر تھے۔ انہیں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد دونوں ملکوں میں موجود اقلیتوں ہندوستان میں مسلمان اور پاکستان میں ہندوﺅں کے مسائل کا ادراک تھا۔ اسی لیے انہوں نے پاکستان بننے تک بھی تقسیم کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے کانگریس ورکنگ کمیٹی میں تقسیم کے خلاف اپنا ووٹ دیا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی، وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی آف لاءنے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد یادگاری خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ خطبہ کا عنوان ”مولانا ابوالکلام آزاد اور مذہبی و ثقافتی تنوع کا آئینی نظم“ تھا۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ یومِ آزاد تقاریب کا آغاز مانو ماڈل اسکول ، فلک نما، حیدرآباد میں 3 نومبر کو ایک رنگا رنگ پروگرام کے ساتھ ہوا تھا۔
پروفیسر فیضان مصطفی نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے آزاد ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کے لیے مولانا آزاد کے خیالات سے استفادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دستور میں شامل شق 30 کے تحت اقلیتیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں۔ مولانا آزاد نے قرآن مجید کے پیغام کو اپناکر اپنے خیالات کو ترتیب دیا تھا اس سلسلے میں مذہبی نقطہ ¿ نظر سے بھی ان پر تحقیق ہونی چاہیے۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے آج ٹویٹ کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام کو یاد کیا۔ مولانا ایک عظیم شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی آواز لوگوں کو الہلال کے ذریعہ پھر البلاغ کے ذریعہ پہنچائی۔ ان کا یہ درد تھا جو انہوں نے ان اخبارات کے ذریعہ پیش کیا اور وہ درد بڑھتا ہی رہا۔ مولانا کی اہلیہ بیمار ہوگئیں تو انہیں جیل سے گھر جانے کا موقع مل سکتا تھا لیکن انہوں نے جنگ آزادی کے پیش نظر انگریز افسران سے درخواست کرنا گوارہ نہ کیا۔ مولانا آزاد تنوع کے حامی تھے۔
ڈاکٹر اے ناگیندر ریڈی، ڈائرکٹر سالار جنگ میوزیم نے کہا کہ وہ اردو یونیورسٹی سے یادداشتِ مفاہمت کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مانو کے طلبہ کو میوزیم میں ایک ماہ تک مفت داخلہ دینے کا اعلان کیا۔ اس سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں کے طلبہ بطور خاص سالار جنگ لائبریری میں موجود نادر و نایاب مخطوطات پر تحقیق کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میوزیم میں جلد ہی ایک اسلامی گیلری قائم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مانو سے تعاون طلب کیا۔
ڈاکٹر ایس چنم ریڈی، ڈائرکٹر، این آئی ٹی ایچ ایم، حیدرآباد نے کہا کہ پرانے کے دور کے طلبہ میں اور آج کے طلبہ میں بڑا فرق ہے۔ آج کے طلبہ کو تقریباً معلومات ان کے موبائل پر دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی ذرائع کا تحفظ اور کفایت کے ساتھ استعمال کرنے سے فنڈس کی بچت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ میں بارش کے پانی کے تحفظ اور الکٹریسٹی کی بچت کے ذریعہ کافی فنڈ بچانے میں کامیاب ہیں۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے کہا کہ مولانا آزاد مفکرِ تعلیم تھے۔ مفکر تعلیم کا مرتبہ ماہر تعلیم سے بھی اعلیٰ ہے۔ ماہر تعلیم، تعلیمی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے تعلیم کی ترقی کے لیے کوشش کرتا ہے جبکہ مفکر تعلیم، تعلیم کے نظام کو ہی متعین کرتا ہے۔ اس طرح ہندوستان میں تعلیم کا موجودہ نظام دراصل مولانا آزاد کی ہی دین ہے۔ مزید یہ کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020کے مختلف پہلو مولانا آزاد کے تعلیم سے متعلق خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر مولانا کو خراج پیش کرتے ہوئے چند اشعار سنائے۔ آﺅ مانو میں منائیں اسی آزاد کی یاد:: جس کے پیغام سے مٹتا ہے ہر اک بغض و عناد، جس نے اس ملک میں تعلیم کو وسعت دی ہے:: جس کی سوچوں میں ہر اک لمحہ رہا سب کا مفاد، جس کا باطن بھی تھا ظاہر کی طرح آئینہ:: جس کے کردار میں اور قول میں کچھ تھا نہ تضاد، اس کے احوال سنائیں تو محبت جاگے:: جس نے چاہا نہیں بھارت میں کبھی فتنہ فساد، یومِ تعلیم میںآج آﺅ انہیں یاد کریں:: جس کے رستے پہ جو چلتے ہیں وہ پاتے ہیں مراد۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی نے خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر احمد خان، کنوینر یومِ آزاد تقاریب نے کاروائی چلائی اور پروفیسر فیضان مصطفی کا تعارف پیش کیا۔ جناب معراج احمد، رکن کور کمیٹی نے مختلف مقابلوں میں انعامات حاصل کرنے والے طلبہ کے نام پیش کیے۔ ڈاکٹر عاطف عمران کی قرا ت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔
اردو یونیورسٹی میں مسابقتی مباحثہ کا انعقاد
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے حصہ کے طور پر مسابقتی مباحثہ کا 9 نومبر کو انعقاد عمل میں آیا۔ یہ مقابلہ گوگل میٹ کے ذریعہ آن لائن کیا گیا جس کی عنوان ”ٹکنالوجی کا معاشرے کے ثقافتی اقدار پر نقصاندہ اثر “ تھا۔ پروفیسر عبدالسمیع صدیقی، کوآرڈینیٹر کے بموجب مباحثہ کا ابتدائی راﺅنڈ بموضوع”سوشیل میڈیا آن لائن سیکھنے کا مثبت ذریعہ“ کا تین زبانوں اردو، ہندی اور انگریزی میں 28 اکتوبر کو انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اردو میں آصف جاوید، ڈی ایل ایڈ کو پہلا؛ شاہ عالم خان، ایم اے کو دوسرا اور محمد بلال، بی اے کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ ہندی میں شاہنواز عالم، بی ایڈ کو پہلا، آرزو خاتون، ڈی ایل ایڈ کو دوسرا اور محمد محفوظ عالم کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ جبکہ انگریزی میں انتصار فاطمہ، ایم ایڈ کو پہلا؛ رخسانہ پروین، بی ایڈ کو دوسرا محمد کاشف، بی ٹیک کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی اور ڈاکٹر احمد خان، کنوینر کمیٹی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ڈاکٹر محمد اکبر، جناب غفران برکاتی اور محترمہ عصمت فاطمہ نے اردو کے ججس کے فرائض انجام دیئے۔ ہندی میں ڈاکٹر بی ایل مینا، ڈاکٹر عبدالباسط انصاری اور جناب فہیم انور ججس تھے۔
اردو یونیورسٹی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے گوشہ کا افتتاح
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد تقاریب کے سلسلے میں 9 نومبر کو سید حامد مرکزی کتب خانہ میں ”گوشہ ¿ آزاد“ کا پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر کے ہاتھوں افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد پر ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ اس میں بڑی تعداد میں مولانا آزاد کی لکھی ہوئی کتابیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ واری الہلال اور البلاغ کی کاپیاںبھی مشاہدے کے لیے رکھی گئیں۔ گوشے میں مجاہد آزادی کی کمیاب تصاویر اور مولانا آزاد کے لکھے ہوئے خطوط بھی موجود ہیں۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ مولانا آزاد ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان تھے۔ انہیں ایک زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں اردو، عربی اور فارسی بھی شامل ہیں۔ وہ گاندھیائی خیالات سے متاثر تھے اور وہ مختلف مذاہب، ذاتوں اور قوموں کے ایک ساتھ رہنے کی وکالت کرتے تھے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر؛ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج اور مختلف اسکولوں کے ڈینس بھی موجود تھے۔
مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
Hyderabad,
مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
اُردو یونیورسٹی میں پروفیسر فیضان مصطفی کا یومِ آزاد میموریل لیکچر۔ پروفیسر عین الحسن و دیگر کے خطاب
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد اتحاد کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ وہ ایک دور اندیش مفکر تھے۔ انہیں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد دونوں ملکوں میں موجود اقلیتوں ہندوستان میں مسلمان اور پاکستان میں ہندوﺅں کے مسائل کا ادراک تھا۔ اسی لیے انہوں نے پاکستان بننے تک بھی تقسیم کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے کانگریس ورکنگ کمیٹی میں تقسیم کے خلاف اپنا ووٹ دیا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی، وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی آف لاءنے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد یادگاری خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ خطبہ کا عنوان ”مولانا ابوالکلام آزاد اور مذہبی و ثقافتی تنوع کا آئینی نظم“ تھا۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ یومِ آزاد تقاریب کا آغاز مانو ماڈل اسکول ، فلک نما، حیدرآباد میں 3 نومبر کو ایک رنگا رنگ پروگرام کے ساتھ ہوا تھا۔
پروفیسر فیضان مصطفی نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے آزاد ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کے لیے مولانا آزاد کے خیالات سے استفادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دستور میں شامل شق 30 کے تحت اقلیتیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں۔ مولانا آزاد نے قرآن مجید کے پیغام کو اپناکر اپنے خیالات کو ترتیب دیا تھا اس سلسلے میں مذہبی نقطہ ¿ نظر سے بھی ان پر تحقیق ہونی چاہیے۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے آج ٹویٹ کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام کو یاد کیا۔ مولانا ایک عظیم شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی آواز لوگوں کو الہلال کے ذریعہ پھر البلاغ کے ذریعہ پہنچائی۔ ان کا یہ درد تھا جو انہوں نے ان اخبارات کے ذریعہ پیش کیا اور وہ درد بڑھتا ہی رہا۔ مولانا کی اہلیہ بیمار ہوگئیں تو انہیں جیل سے گھر جانے کا موقع مل سکتا تھا لیکن انہوں نے جنگ آزادی کے پیش نظر انگریز افسران سے درخواست کرنا گوارہ نہ کیا۔ مولانا آزاد تنوع کے حامی تھے۔
ڈاکٹر اے ناگیندر ریڈی، ڈائرکٹر سالار جنگ میوزیم نے کہا کہ وہ اردو یونیورسٹی سے یادداشتِ مفاہمت کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مانو کے طلبہ کو میوزیم میں ایک ماہ تک مفت داخلہ دینے کا اعلان کیا۔ اس سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں کے طلبہ بطور خاص سالار جنگ لائبریری میں موجود نادر و نایاب مخطوطات پر تحقیق کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میوزیم میں جلد ہی ایک اسلامی گیلری قائم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مانو سے تعاون طلب کیا۔
ڈاکٹر ایس چنم ریڈی، ڈائرکٹر، این آئی ٹی ایچ ایم، حیدرآباد نے کہا کہ پرانے کے دور کے طلبہ میں اور آج کے طلبہ میں بڑا فرق ہے۔ آج کے طلبہ کو تقریباً معلومات ان کے موبائل پر دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی ذرائع کا تحفظ اور کفایت کے ساتھ استعمال کرنے سے فنڈس کی بچت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ میں بارش کے پانی کے تحفظ اور الکٹریسٹی کی بچت کے ذریعہ کافی فنڈ بچانے میں کامیاب ہیں۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے کہا کہ مولانا آزاد مفکرِ تعلیم تھے۔ مفکر تعلیم کا مرتبہ ماہر تعلیم سے بھی اعلیٰ ہے۔ ماہر تعلیم، تعلیمی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے تعلیم کی ترقی کے لیے کوشش کرتا ہے جبکہ مفکر تعلیم، تعلیم کے نظام کو ہی متعین کرتا ہے۔ اس طرح ہندوستان میں تعلیم کا موجودہ نظام دراصل مولانا آزاد کی ہی دین ہے۔ مزید یہ کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020کے مختلف پہلو مولانا آزاد کے تعلیم سے متعلق خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر مولانا کو خراج پیش کرتے ہوئے چند اشعار سنائے۔ آﺅ مانو میں منائیں اسی آزاد کی یاد:: جس کے پیغام سے مٹتا ہے ہر اک بغض و عناد، جس نے اس ملک میں تعلیم کو وسعت دی ہے:: جس کی سوچوں میں ہر اک لمحہ رہا سب کا مفاد، جس کا باطن بھی تھا ظاہر کی طرح آئینہ:: جس کے کردار میں اور قول میں کچھ تھا نہ تضاد، اس کے احوال سنائیں تو محبت جاگے:: جس نے چاہا نہیں بھارت میں کبھی فتنہ فساد، یومِ تعلیم میںآج آﺅ انہیں یاد کریں:: جس کے رستے پہ جو چلتے ہیں وہ پاتے ہیں مراد۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی نے خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر احمد خان، کنوینر یومِ آزاد تقاریب نے کاروائی چلائی اور پروفیسر فیضان مصطفی کا تعارف پیش کیا۔ جناب معراج احمد، رکن کور کمیٹی نے مختلف مقابلوں میں انعامات حاصل کرنے والے طلبہ کے نام پیش کیے۔ ڈاکٹر عاطف عمران کی قرا ت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔
اردو یونیورسٹی میں مسابقتی مباحثہ کا انعقاد
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے حصہ کے طور پر مسابقتی مباحثہ کا 9 نومبر کو انعقاد عمل میں آیا۔ یہ مقابلہ گوگل میٹ کے ذریعہ آن لائن کیا گیا جس کی عنوان ”ٹکنالوجی کا معاشرے کے ثقافتی اقدار پر نقصاندہ اثر “ تھا۔ پروفیسر عبدالسمیع صدیقی، کوآرڈینیٹر کے بموجب مباحثہ کا ابتدائی راﺅنڈ بموضوع”سوشیل میڈیا آن لائن سیکھنے کا مثبت ذریعہ“ کا تین زبانوں اردو، ہندی اور انگریزی میں 28 اکتوبر کو انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اردو میں آصف جاوید، ڈی ایل ایڈ کو پہلا؛ شاہ عالم خان، ایم اے کو دوسرا اور محمد بلال، بی اے کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ ہندی میں شاہنواز عالم، بی ایڈ کو پہلا، آرزو خاتون، ڈی ایل ایڈ کو دوسرا اور محمد محفوظ عالم کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ جبکہ انگریزی میں انتصار فاطمہ، ایم ایڈ کو پہلا؛ رخسانہ پروین، بی ایڈ کو دوسرا محمد کاشف، بی ٹیک کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی اور ڈاکٹر احمد خان، کنوینر کمیٹی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ڈاکٹر محمد اکبر، جناب غفران برکاتی اور محترمہ عصمت فاطمہ نے اردو کے ججس کے فرائض انجام دیئے۔ ہندی میں ڈاکٹر بی ایل مینا، ڈاکٹر عبدالباسط انصاری اور جناب فہیم انور ججس تھے۔
اردو یونیورسٹی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے گوشہ کا افتتاح
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد تقاریب کے سلسلے میں 9 نومبر کو سید حامد مرکزی کتب خانہ میں ”گوشہ ¿ آزاد“ کا پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر کے ہاتھوں افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد پر ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ اس میں بڑی تعداد میں مولانا آزاد کی لکھی ہوئی کتابیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ واری الہلال اور البلاغ کی کاپیاںبھی مشاہدے کے لیے رکھی گئیں۔ گوشے میں مجاہد آزادی کی کمیاب تصاویر اور مولانا آزاد کے لکھے ہوئے خطوط بھی موجود ہیں۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ مولانا آزاد ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان تھے۔ انہیں ایک زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں اردو، عربی اور فارسی بھی شامل ہیں۔ وہ گاندھیائی خیالات سے متاثر تھے اور وہ مختلف مذاہب، ذاتوں اور قوموں کے ایک ساتھ رہنے کی وکالت کرتے تھے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر؛ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج اور مختلف اسکولوں کے ڈینس بھی موجود تھے۔
مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
Hyderabad,
مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
اُردو یونیورسٹی میں پروفیسر فیضان مصطفی کا یومِ آزاد میموریل لیکچر۔ پروفیسر عین الحسن و دیگر کے خطاب
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد اتحاد کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ وہ ایک دور اندیش مفکر تھے۔ انہیں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد دونوں ملکوں میں موجود اقلیتوں ہندوستان میں مسلمان اور پاکستان میں ہندوﺅں کے مسائل کا ادراک تھا۔ اسی لیے انہوں نے پاکستان بننے تک بھی تقسیم کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے کانگریس ورکنگ کمیٹی میں تقسیم کے خلاف اپنا ووٹ دیا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی، وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی آف لاءنے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد یادگاری خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ خطبہ کا عنوان ”مولانا ابوالکلام آزاد اور مذہبی و ثقافتی تنوع کا آئینی نظم“ تھا۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ یومِ آزاد تقاریب کا آغاز مانو ماڈل اسکول ، فلک نما، حیدرآباد میں 3 نومبر کو ایک رنگا رنگ پروگرام کے ساتھ ہوا تھا۔
پروفیسر فیضان مصطفی نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے آزاد ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کے لیے مولانا آزاد کے خیالات سے استفادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دستور میں شامل شق 30 کے تحت اقلیتیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں۔ مولانا آزاد نے قرآن مجید کے پیغام کو اپناکر اپنے خیالات کو ترتیب دیا تھا اس سلسلے میں مذہبی نقطہ ¿ نظر سے بھی ان پر تحقیق ہونی چاہیے۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے آج ٹویٹ کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام کو یاد کیا۔ مولانا ایک عظیم شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی آواز لوگوں کو الہلال کے ذریعہ پھر البلاغ کے ذریعہ پہنچائی۔ ان کا یہ درد تھا جو انہوں نے ان اخبارات کے ذریعہ پیش کیا اور وہ درد بڑھتا ہی رہا۔ مولانا کی اہلیہ بیمار ہوگئیں تو انہیں جیل سے گھر جانے کا موقع مل سکتا تھا لیکن انہوں نے جنگ آزادی کے پیش نظر انگریز افسران سے درخواست کرنا گوارہ نہ کیا۔ مولانا آزاد تنوع کے حامی تھے۔
ڈاکٹر اے ناگیندر ریڈی، ڈائرکٹر سالار جنگ میوزیم نے کہا کہ وہ اردو یونیورسٹی سے یادداشتِ مفاہمت کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مانو کے طلبہ کو میوزیم میں ایک ماہ تک مفت داخلہ دینے کا اعلان کیا۔ اس سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں کے طلبہ بطور خاص سالار جنگ لائبریری میں موجود نادر و نایاب مخطوطات پر تحقیق کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میوزیم میں جلد ہی ایک اسلامی گیلری قائم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مانو سے تعاون طلب کیا۔
ڈاکٹر ایس چنم ریڈی، ڈائرکٹر، این آئی ٹی ایچ ایم، حیدرآباد نے کہا کہ پرانے کے دور کے طلبہ میں اور آج کے طلبہ میں بڑا فرق ہے۔ آج کے طلبہ کو تقریباً معلومات ان کے موبائل پر دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی ذرائع کا تحفظ اور کفایت کے ساتھ استعمال کرنے سے فنڈس کی بچت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ میں بارش کے پانی کے تحفظ اور الکٹریسٹی کی بچت کے ذریعہ کافی فنڈ بچانے میں کامیاب ہیں۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے کہا کہ مولانا آزاد مفکرِ تعلیم تھے۔ مفکر تعلیم کا مرتبہ ماہر تعلیم سے بھی اعلیٰ ہے۔ ماہر تعلیم، تعلیمی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے تعلیم کی ترقی کے لیے کوشش کرتا ہے جبکہ مفکر تعلیم، تعلیم کے نظام کو ہی متعین کرتا ہے۔ اس طرح ہندوستان میں تعلیم کا موجودہ نظام دراصل مولانا آزاد کی ہی دین ہے۔ مزید یہ کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020کے مختلف پہلو مولانا آزاد کے تعلیم سے متعلق خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر مولانا کو خراج پیش کرتے ہوئے چند اشعار سنائے۔ آﺅ مانو میں منائیں اسی آزاد کی یاد:: جس کے پیغام سے مٹتا ہے ہر اک بغض و عناد، جس نے اس ملک میں تعلیم کو وسعت دی ہے:: جس کی سوچوں میں ہر اک لمحہ رہا سب کا مفاد، جس کا باطن بھی تھا ظاہر کی طرح آئینہ:: جس کے کردار میں اور قول میں کچھ تھا نہ تضاد، اس کے احوال سنائیں تو محبت جاگے:: جس نے چاہا نہیں بھارت میں کبھی فتنہ فساد، یومِ تعلیم میںآج آﺅ انہیں یاد کریں:: جس کے رستے پہ جو چلتے ہیں وہ پاتے ہیں مراد۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی نے خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر احمد خان، کنوینر یومِ آزاد تقاریب نے کاروائی چلائی اور پروفیسر فیضان مصطفی کا تعارف پیش کیا۔ جناب معراج احمد، رکن کور کمیٹی نے مختلف مقابلوں میں انعامات حاصل کرنے والے طلبہ کے نام پیش کیے۔ ڈاکٹر عاطف عمران کی قرا ت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔
اردو یونیورسٹی میں مسابقتی مباحثہ کا انعقاد
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے حصہ کے طور پر مسابقتی مباحثہ کا 9 نومبر کو انعقاد عمل میں آیا۔ یہ مقابلہ گوگل میٹ کے ذریعہ آن لائن کیا گیا جس کی عنوان ”ٹکنالوجی کا معاشرے کے ثقافتی اقدار پر نقصاندہ اثر “ تھا۔ پروفیسر عبدالسمیع صدیقی، کوآرڈینیٹر کے بموجب مباحثہ کا ابتدائی راﺅنڈ بموضوع”سوشیل میڈیا آن لائن سیکھنے کا مثبت ذریعہ“ کا تین زبانوں اردو، ہندی اور انگریزی میں 28 اکتوبر کو انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اردو میں آصف جاوید، ڈی ایل ایڈ کو پہلا؛ شاہ عالم خان، ایم اے کو دوسرا اور محمد بلال، بی اے کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ ہندی میں شاہنواز عالم، بی ایڈ کو پہلا، آرزو خاتون، ڈی ایل ایڈ کو دوسرا اور محمد محفوظ عالم کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ جبکہ انگریزی میں انتصار فاطمہ، ایم ایڈ کو پہلا؛ رخسانہ پروین، بی ایڈ کو دوسرا محمد کاشف، بی ٹیک کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی اور ڈاکٹر احمد خان، کنوینر کمیٹی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ڈاکٹر محمد اکبر، جناب غفران برکاتی اور محترمہ عصمت فاطمہ نے اردو کے ججس کے فرائض انجام دیئے۔ ہندی میں ڈاکٹر بی ایل مینا، ڈاکٹر عبدالباسط انصاری اور جناب فہیم انور ججس تھے۔
اردو یونیورسٹی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے گوشہ کا افتتاح
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد تقاریب کے سلسلے میں 9 نومبر کو سید حامد مرکزی کتب خانہ میں ”گوشہ ¿ آزاد“ کا پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر کے ہاتھوں افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد پر ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ اس میں بڑی تعداد میں مولانا آزاد کی لکھی ہوئی کتابیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ واری الہلال اور البلاغ کی کاپیاںبھی مشاہدے کے لیے رکھی گئیں۔ گوشے میں مجاہد آزادی کی کمیاب تصاویر اور مولانا آزاد کے لکھے ہوئے خطوط بھی موجود ہیں۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ مولانا آزاد ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان تھے۔ انہیں ایک زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں اردو، عربی اور فارسی بھی شامل ہیں۔ وہ گاندھیائی خیالات سے متاثر تھے اور وہ مختلف مذاہب، ذاتوں اور قوموں کے ایک ساتھ رہنے کی وکالت کرتے تھے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر؛ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج اور مختلف اسکولوں کے ڈینس بھی موجود تھے۔
مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
Hyderabad,
مولانا کو تقسیمِ ہند پر دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک تھا
اُردو یونیورسٹی میں پروفیسر فیضان مصطفی کا یومِ آزاد میموریل لیکچر۔ پروفیسر عین الحسن و دیگر کے خطاب
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد اتحاد کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ وہ ایک دور اندیش مفکر تھے۔ انہیں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد دونوں ملکوں میں موجود اقلیتوں ہندوستان میں مسلمان اور پاکستان میں ہندوﺅں کے مسائل کا ادراک تھا۔ اسی لیے انہوں نے پاکستان بننے تک بھی تقسیم کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے کانگریس ورکنگ کمیٹی میں تقسیم کے خلاف اپنا ووٹ دیا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی، وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی آف لاءنے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد یادگاری خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ خطبہ کا عنوان ”مولانا ابوالکلام آزاد اور مذہبی و ثقافتی تنوع کا آئینی نظم“ تھا۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ یومِ آزاد تقاریب کا آغاز مانو ماڈل اسکول ، فلک نما، حیدرآباد میں 3 نومبر کو ایک رنگا رنگ پروگرام کے ساتھ ہوا تھا۔
پروفیسر فیضان مصطفی نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے آزاد ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کے لیے مولانا آزاد کے خیالات سے استفادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دستور میں شامل شق 30 کے تحت اقلیتیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں۔ مولانا آزاد نے قرآن مجید کے پیغام کو اپناکر اپنے خیالات کو ترتیب دیا تھا اس سلسلے میں مذہبی نقطہ ¿ نظر سے بھی ان پر تحقیق ہونی چاہیے۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے آج ٹویٹ کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام کو یاد کیا۔ مولانا ایک عظیم شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی آواز لوگوں کو الہلال کے ذریعہ پھر البلاغ کے ذریعہ پہنچائی۔ ان کا یہ درد تھا جو انہوں نے ان اخبارات کے ذریعہ پیش کیا اور وہ درد بڑھتا ہی رہا۔ مولانا کی اہلیہ بیمار ہوگئیں تو انہیں جیل سے گھر جانے کا موقع مل سکتا تھا لیکن انہوں نے جنگ آزادی کے پیش نظر انگریز افسران سے درخواست کرنا گوارہ نہ کیا۔ مولانا آزاد تنوع کے حامی تھے۔
ڈاکٹر اے ناگیندر ریڈی، ڈائرکٹر سالار جنگ میوزیم نے کہا کہ وہ اردو یونیورسٹی سے یادداشتِ مفاہمت کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مانو کے طلبہ کو میوزیم میں ایک ماہ تک مفت داخلہ دینے کا اعلان کیا۔ اس سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں کے طلبہ بطور خاص سالار جنگ لائبریری میں موجود نادر و نایاب مخطوطات پر تحقیق کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میوزیم میں جلد ہی ایک اسلامی گیلری قائم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مانو سے تعاون طلب کیا۔
ڈاکٹر ایس چنم ریڈی، ڈائرکٹر، این آئی ٹی ایچ ایم، حیدرآباد نے کہا کہ پرانے کے دور کے طلبہ میں اور آج کے طلبہ میں بڑا فرق ہے۔ آج کے طلبہ کو تقریباً معلومات ان کے موبائل پر دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی ذرائع کا تحفظ اور کفایت کے ساتھ استعمال کرنے سے فنڈس کی بچت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ میں بارش کے پانی کے تحفظ اور الکٹریسٹی کی بچت کے ذریعہ کافی فنڈ بچانے میں کامیاب ہیں۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے کہا کہ مولانا آزاد مفکرِ تعلیم تھے۔ مفکر تعلیم کا مرتبہ ماہر تعلیم سے بھی اعلیٰ ہے۔ ماہر تعلیم، تعلیمی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے تعلیم کی ترقی کے لیے کوشش کرتا ہے جبکہ مفکر تعلیم، تعلیم کے نظام کو ہی متعین کرتا ہے۔ اس طرح ہندوستان میں تعلیم کا موجودہ نظام دراصل مولانا آزاد کی ہی دین ہے۔ مزید یہ کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020کے مختلف پہلو مولانا آزاد کے تعلیم سے متعلق خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر مولانا کو خراج پیش کرتے ہوئے چند اشعار سنائے۔ آﺅ مانو میں منائیں اسی آزاد کی یاد:: جس کے پیغام سے مٹتا ہے ہر اک بغض و عناد، جس نے اس ملک میں تعلیم کو وسعت دی ہے:: جس کی سوچوں میں ہر اک لمحہ رہا سب کا مفاد، جس کا باطن بھی تھا ظاہر کی طرح آئینہ:: جس کے کردار میں اور قول میں کچھ تھا نہ تضاد، اس کے احوال سنائیں تو محبت جاگے:: جس نے چاہا نہیں بھارت میں کبھی فتنہ فساد، یومِ تعلیم میںآج آﺅ انہیں یاد کریں:: جس کے رستے پہ جو چلتے ہیں وہ پاتے ہیں مراد۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی نے خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر احمد خان، کنوینر یومِ آزاد تقاریب نے کاروائی چلائی اور پروفیسر فیضان مصطفی کا تعارف پیش کیا۔ جناب معراج احمد، رکن کور کمیٹی نے مختلف مقابلوں میں انعامات حاصل کرنے والے طلبہ کے نام پیش کیے۔ ڈاکٹر عاطف عمران کی قرا ت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا۔
اردو یونیورسٹی میں مسابقتی مباحثہ کا انعقاد
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے حصہ کے طور پر مسابقتی مباحثہ کا 9 نومبر کو انعقاد عمل میں آیا۔ یہ مقابلہ گوگل میٹ کے ذریعہ آن لائن کیا گیا جس کی عنوان ”ٹکنالوجی کا معاشرے کے ثقافتی اقدار پر نقصاندہ اثر “ تھا۔ پروفیسر عبدالسمیع صدیقی، کوآرڈینیٹر کے بموجب مباحثہ کا ابتدائی راﺅنڈ بموضوع”سوشیل میڈیا آن لائن سیکھنے کا مثبت ذریعہ“ کا تین زبانوں اردو، ہندی اور انگریزی میں 28 اکتوبر کو انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اردو میں آصف جاوید، ڈی ایل ایڈ کو پہلا؛ شاہ عالم خان، ایم اے کو دوسرا اور محمد بلال، بی اے کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ ہندی میں شاہنواز عالم، بی ایڈ کو پہلا، آرزو خاتون، ڈی ایل ایڈ کو دوسرا اور محمد محفوظ عالم کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ جبکہ انگریزی میں انتصار فاطمہ، ایم ایڈ کو پہلا؛ رخسانہ پروین، بی ایڈ کو دوسرا محمد کاشف، بی ٹیک کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب کمیٹی اور ڈاکٹر احمد خان، کنوینر کمیٹی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ڈاکٹر محمد اکبر، جناب غفران برکاتی اور محترمہ عصمت فاطمہ نے اردو کے ججس کے فرائض انجام دیئے۔ ہندی میں ڈاکٹر بی ایل مینا، ڈاکٹر عبدالباسط انصاری اور جناب فہیم انور ججس تھے۔
اردو یونیورسٹی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے گوشہ کا افتتاح
حیدرآباد،11 نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد تقاریب کے سلسلے میں 9 نومبر کو سید حامد مرکزی کتب خانہ میں ”گوشہ ¿ آزاد“ کا پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر کے ہاتھوں افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد پر ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ اس میں بڑی تعداد میں مولانا آزاد کی لکھی ہوئی کتابیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ واری الہلال اور البلاغ کی کاپیاںبھی مشاہدے کے لیے رکھی گئیں۔ گوشے میں مجاہد آزادی کی کمیاب تصاویر اور مولانا آزاد کے لکھے ہوئے خطوط بھی موجود ہیں۔
پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ مولانا آزاد ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان تھے۔ انہیں ایک زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں اردو، عربی اور فارسی بھی شامل ہیں۔ وہ گاندھیائی خیالات سے متاثر تھے اور وہ مختلف مذاہب، ذاتوں اور قوموں کے ایک ساتھ رہنے کی وکالت کرتے تھے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر؛ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج اور مختلف اسکولوں کے ڈینس بھی موجود تھے۔