عمر خالدی ہال کا مانو میں امریکی قونصل جنرل اور وائس چانسلر کے ہاتھوں افتتاح
عمر خالدی ہال کا مانو میں امریکی قونصل جنرل اور وائس چانسلر کے ہاتھوں افتتاح
PressRelease
عمر خالدی ہال کا مانو میں امریکی قونصل جنرل اور وائس چانسلر کے ہاتھوں افتتاح
ممتاز اسکالر کی نادر کتابوں کے ذخیرے کی منتقلی ۔ جنیفر لارسن اور پروفیسر عین الحسن کے خطاب
حیدرآباد کے ثقافتی ورثہ پر کانفرنس کا ایچ کے شیروانی مرکز مطالعات دکن میں انعقاد
حیدرآباد، 15 جون (پریس نوٹ) حیدرآباد کے ممتاز اسکالر ڈاکٹر عمر خالدی کی خدمات کا اعتراف اور ان کی جمع کردہ کتابوں کے اس شاندار ذخیرہ کو حیدرآباد لانے میں معاونت ایک اعزاز ہے۔ڈاکٹر خالدی کی زندگی اور کیریئر علمی اور سماجی حلقوں میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے ہم ان کی کوششوں کی ستائش کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار محترمہ جنیفر لارسن، قونصل جنرل امریکہ متعینہ حیدرآباد نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، ہارون خان شیروانی مرکز برائے مطالعاتِ دکن میں عمر خالدی ہال اور ایک روزہ کانفرنس ”برانڈ حیدرآباد کے ثقافتی ورثہ کی بازیافت“ کے افتتاح کے موقع پر کیا۔ ہال اور کانفرنس کا افتتاح 17جون کو عمر خالدی کی یومِ پیدائش کے پہلے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے طور پر عمل میں آیا ہے۔پروفیسر سید عین الحسن ، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ حیدرآبادی نژاد امریکی شہری ڈاکٹر عمر خالدی اقلیتی حقوق، تاریخ، فن تعمیر، معاشیات، آبادیات، سیاست،قومیت اور اردو تعلیم کے نامور اسکالر تھے۔ انہوں نے دکن کی تاریخ اور ثقافت پر بالعموم اور حیدرآباد پر بالخصوص کئی کتابیں اور مضامین لکھے۔ان کی اُردو، انگریزی، ہندی، تلگو، فرانسیسی اور اطالوی وغیرہ مختلف زبانوں میں جمع کردہ نادر کتابوں، مخطوطات اور چیدہ دستاویزات کو جو تقریباً 1649 ہیں، خالدی خاندان نے اُردو یونیورسٹی کے مرکز مطالعاتِ دکن کو عطیہ دیا ہے۔اس سے طلبہ، اسکالرس اور تاریخ اور قطعہ ¿ دکن میں دلچسپی رکھنے والے افراد استفادہ کرسکتے ہیں۔عمر خالدی کی کتابوں کے اس ذخیرے کی مانو میں منتقلی کا ایک عرصے سے انتظار تھا۔
محترمہ لارسن نے مزید کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ کتابوں کا یہ ذخیرہ دوسروں کے لیے عمر خالدی کے نقش قدم پر چلنے اور امریکہ اور ہندوستان کے درمیان مزید مضبوط تعلقات کے فروغ میں ترغیبی کردار ادا کرے گا۔
پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے اپنی صدارتی تقریر میں کتابوں کے اس ذخیرے سے حیدرآبادی عوام کی وابستہ یادوں اور مطالعاتِ دکن کے مختلف میدانوں میں کام کرنے والے محققین کے لیے اس ذخیرہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے عمر خالدی کو ایک مثالی محقق اور مصنف قرار دیا جنہوں نے متنوع موضوعات پر کام کیا۔ پروفیسر عین الحسن نے ہارون خان شیروانی مرکز مطالعاتِ دکن کی ڈائرکٹر پروفیسر سلمیٰ احمد فاروقی کی ستائش کرتے ہوئے ان کی قیادت میں مرکز کو محفوظ قرار دیا۔
پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار نے مانو اور محترمہ عالیہ خالدی (اٹارنی)، دختر عمر خالدی کے درمیان ہوئے معاہدے کا تفصیل سے ذکر کیا اور عمر خالدی کی زندگی پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر سلمیٰ احمد فاروقی نے کہا کہ ڈاکٹر عمر خالدی کی کتابوں کے ذخیرے کو حیدرآباد لانا ہمارا مقصد تھا۔ کیونکہ یہ ایک ایسا ذخیرہ ہے جسے کئی امریکی یونیورسٹیاں اور حیدرآبادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اس کا حیدرآبادکی جامعہ میں ہی رہنا زیادہ مناسب تھا۔ محترمہ عالیہ خالدی نے ویڈیو پیام میں کتابوں کے مطالعے سے ان کے والد کے جنون کی حد تک محبت کا تذکرہ کیا۔ ممتاز صحافی جناب میر ایوب علی خان، سابق میڈیا کوآرڈنیٹر، مانو نے ڈاکٹر عمر خالدی کا تفصیلی تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 25 کتابوں کے مصنف تھے۔ انہیں حیدرآباد کی تاریخ اور ثقافت سے بے پناہ دلچسپی تھی۔ ڈاکٹر اے سبھاش، اسسٹنٹ پروفیسر مرکز نے خیر مقدم کیا۔ جبکہ ڈاکٹر شاہد جمال، اسسٹنٹ پروفیسر مرکز نے شکریہ ادا کیا۔
بعد ازاں تکنیکی سیشن کی صدارت جناب سجاد شاہد، ایڈیٹر دکن اسٹڈیز جرنل و شریک کنوینر، انٹاک حیدرآباد چیپٹر نے کی۔ آرکٹیکٹ یشونت راما مورتی نے ”حیدرآبادی باﺅلیوں (کنوﺅں) کی ثقافتی اہمیت“ ، جناب محمد ایوب خان نے ”حیدرآباد ریاست اور اس کی ثقافتی علامتیں“ اور پروفیسر آئی تھیروملی نے ”ثقافت، زبان اور قومیت: جمہوریت کی طرف دکن کے سفر کی کہانی“ عناوین پر خطاب کیا۔ پینل مباحثہ ”حیدرآبادی ورثہ نوجوانوں کی نظر میں“ کی صدارت محترمہ انورادھا ریڈی، کنوینر انٹاک نے کی۔ سید محمد عون مہدی، یونس لسانیہ، محمد صبغت اللہ خان، محترمہ مودیتا دوبے، محترمہ تانیہ شریواستو اور محترمہ لولیتا سنتوشنی مباحثے کے پینلسٹ تھے۔