Submitted by MSQURESHI on Wed, 01/24/2024 - 10:32
پروفیسر ابّی کا اردو یونیورسٹی میں خصوصی خطاب PressRelease

پروفیسر ابّی کا اردو یونیورسٹی میں خصوصی خطاب
حیدرآباد، 23 جنوری (پریس نوٹ) زبانیں علوم کا خزانہ ہوتی ہیں اور ہر زبان کی طاقت اس کے منظم قواعد میں ہوتی ہے۔ ماہر لسانیات اس کے ڈھانچے کی جانچ کرتے ہوئے اس میں پنہا علم کو دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پدم شری پروفیسر انویتا ابّی نے کیا۔ جو ایڈجنکٹ پروفیسر لسانیات، سائمن فریزر یونیورسٹی، کنیڈا و سابق پروفیسر لسانیات، جے این یو ہیں۔ وہ آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں مولانا آزاد چیئر کے زیر اہتمام ”ماحولیاتی تنوع، زبان اور ثقافت“ کے موضوع پر خصوصی لیکچر دے رہی تھیں۔
اپنے لیکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ ہر زبان کے اپنے قواعد ہوتے ہیں۔ جس کی مدد سے لامتناہی جملوں کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔ ان کے مطابق انسانی بچہ پیدائشی طور پر زبانیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہر انسان اپنی ماں کی گود سے ہی مادری زبان کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور مادری زبان کسی سے کم تر نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی فارنسک سائنس مطالعاتِ لسانیات میں ہی ہے۔ ماہرین لسانیات زبان کے ڈھانچے کو سمجھتے ہیں اور اس میں مخفی راز کو آشکار کرتے ہیں۔ پروفیسر ابی کے مطابق مریضوں کے علاج کے لیے جس طرح خود ڈاکٹر کو مریض بننے کی ضرورت نہیں اسی طرح ماہرین لسانیات کا زبانیں جاننا ضروری نہیں۔ بلکہ زبانوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے اور زبانوں کا یہی علم فارنسک سائنس سے کم نہیں۔ ان کے مطابق دنیا کی سب سے قدیم انسانی تہذیب کے نمونے آج بھی انڈومان میں موجود ہیں اور وہاں کی زبان اپنے الفاظ کے ذخیرے سے انگریزی سے کہیں زیادہ مالا مال ہے۔ ان کے مطابق دوسری زبانوں سے الفاظ کا مستعار لینا اس زبان کی طویل زندگی کا ضامن ثبوت ہے۔ کیونکہ زبانیں ماحول سے الفاظ اخذ کرتی ہیں اور زبانوں کے قواعد جغرافیائی اثرات قبول کرتے ہیں۔ ایک ہی بات کو مختلف طرح سے بیان کرنے کے الفاظ کا جو ذخیرہ ہمالیائی زبانوں میں موجود ہے وہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی نہیں۔ پروفیسر ابی کے مطابق کسی بھی ملک اور تہذیب میں یکسانیت کا مطلب خاتمے کا آغاز ہے اور متنوع ہونا زندگی کا راز۔ زبانیں چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی بلکہ ہر زبان کی اپنی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ یہ تہذیب و تمدن کی نمائندہ ہوتی ہیں۔
پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر، مانو نے اس پروگرام کی صدارت کی۔ انہوں نے پروفیسر ابی کے لیکچر کو سمندر کو کوزے میں سمونے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے اپنے لیکچر میں کئی ایک گرہیں کھولنے کی کوشش کی۔ وائس چانسلر نے پروفیسر ابی کی گفتگو کو انتہائی مسحور کن قرار دیا اور کہا کہ اجنبیوں کے درمیان جانا اور ان سے بامعنی گفتگو کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن یہ پروفیسر ابی جیسے ماہر لسانیات کی خوبی ہے کہ وہ اجنبیوں کے درمیان جاکر بھی ترسیل کے کام کو آسانی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ قبل ازیں پروفیسر امتیاز حسنین، پروفیسر آزاد چیئر نے پروفیسر ابی کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ پروفیسر شگفتہ شاہین، او ایس ڈی I نے خیر مقدمی کلمات کہے اور پروگرام کی کارروائی چلائی۔آخر میں یونیورسٹی رجسٹرار پروفیسر اشتیاق احمد نے شکریہ کے فرائض انجام دیئے۔ سید حامد لائبریری آڈیٹوریم میں منعقدہ اس خصوصی لیکچر میں مختلف شعبوں کے صدور، ڈینس، ڈائرکٹرس، اساتذہ اور ریسرچ اسکالرس کی کثیر تعداد شریک تھی جنہیں پروگرام کے اختتام پر پروفیسر ابی سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔