پروفیسر بیگ احساس کو تہذیبی افسانہ نگار ہونے کا اعزاز
پروفیسر بیگ احساس کو تہذیبی افسانہ نگار ہونے کا اعزاز
PressRelease
پروفیسر بیگ احساس کو تہذیبی افسانہ نگار ہونے کا اعزاز
شعبہ ¿ اردو مانو میں تعزیتی نشست۔ پروفیسر نسیم الدین فریس، پروفیسر فاروق بخشی و دیگر کے خطاب
حیدرآباد، 9 ستمبر (پریس نوٹ) پروفیسر بیگ احساس کو تہذیبی افسانہ نگار ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ وہ ایک نہایت ہی نرم گفتار انسان تھے۔ ان کی رحلت اردو دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔ ان تاثرات کا اظہار آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، شعبہ ¿ اردو کی جانب سے منعقدہ ایک تعزیتی نشست میں اساتذہ نے کیا۔ معروف افسانہ نگار، نقاد اور ادبی صحافی پروفیسر بیگ احساس کا 8 ستمبر کو انتقال ہوگیا تھا۔
ڈین اسکول براے السنہ، لساناےت و ہندوستانا ت و صدر شعبہ ¿ اردو، پروفیسرنسیم الدین فریس نے کہا کہ میرے ان سے چالیس سال پرانے تعلقات ہیں۔ بعض اوقات ان کی کھری باتیں سنکر برا لگتا تھا۔ بعد میں احساس ہوا کہ وہ ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔ انھوں نے عملی زندگی کا آغاز ایگری کلچر یو نیورسٹی سے کیا۔ انھوں نے اردو والوں کو میڈیا سے جوڑا۔ فلمی تصویر کی ارادت کے تجربے سے کام لے کر انھوں نے سب رس کے معیار کو بلندی عطا کی۔ ان کے اداریے بے لاگ ہوتے تھے۔ ان کے اداریے ایک ادیب، فنکار اور دانشور کے احساسات کی غمازی کرتے ہیں۔ انھیں کتابی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے افسانے کی کلاسیکی روایات کا دامن ہمیشہ تھامے رکھا۔ بیگ صاحب اور فاطمہ بیگم صاحبہ کی وفات سے شعبہ ¿ اردو کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شعبہ اپنے دونوں بازوو ¿ں سے محروم ہو گیا ہے۔
پروفیسر فاروق بخشی نے کہا کہ آسمان ادب سے جس طرح ستارے ٹوٹ کر گرتے جارہے ہیں اس سے ڈر لگتا ہے کہ ادب کی دنیا کہیں تاریک نہ ہو جائے۔ بیگ احساس کی رحلت اردو دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔ دخمہ ان کا شاہکار ہے۔ میں جب بھی ان سے ملتا تو کہتا کہ بیگ صاحب آخر میکدہ بند کیوں ہوا۔ آخری بار ان سے میری 19 اگست کو بات ہوئی تھی۔
ڈاکٹر مسرت جہاں، اسوسیئٹ پروفیسر نے کہا کہ پروفیسر بیگ احساس ممتاز افسانہ نگار ایک معتبر ناقد اور بہترین صحافی تھے۔ ان کا اداریہ پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ مقالوں کے ایماندار ممتحن تھے۔ غیرجانبداری ان کی بڑی خوبی تھی۔ دخمہ میں حیدرآبادی تہذیب کے عروج و زوال کا عکس پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر شمس الہدیٰ، اسوسیئٹ پروفیسر نے کہا کہ ان کی شخصیت کی دلآویزی نے بہت متاثر ہوا۔ شعبہ ¿ اردو مانو سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ وہ اس کے پروگراموں اور پی ایچ ڈی کے زبانی امتحانات میں اکثر مدعو رہتے۔ ان کی وفات ہم سب کے لیے بڑا خسارہ ہے۔
ڈاکٹر ابو شہیم خاں،اسو سیئٹ پروفیسر نے کہا کہ پروفیسر بیگ احساس عصر حاضر کے مایہ ناز افسانہ نگار تھے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے "خوشہ ¿ گندم"، "حنظل" اور "دخمہ" کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کے افسانے عصری سماج کے پہلوو ¿ں کی عکاسی کرتے ہیں۔ڈاکٹر بی بی رضا، اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ اردو ادب کی دنیا میں پروفیسر بیگ احساس دکن کی نمائندگی کرتے تھے۔ ان کے جانے سے اردو دنیا میں سوگواری طاری ہے۔ڈاکٹر فیر وز عالم، اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ پروفیسربیگ احساس کا انتقال مےرے لیے ذاتی سانحہ ہے۔ ان کے اکثر افسانوں میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے عروج و زوال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ وہ نقاد کے طور پر بھی نمایاں اہمیت کے حامل تھے۔ کرشن چندر پر ان کا تحقیقی کام حوالہ جاتی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا مطالعہ بے حد وسیع تھا اور کسی بھی موضوع گفتگو سے پہلے عرق ریزی کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے۔ نئی نسل میںکلاسیکی متون کے مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کے لیے انہوں نے بازگشت آن لائن ادبی فورم کا آغاز کیا تھا۔ ڈاکٹر شمس الہدیٰ نے مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی۔ شعبہ کے مہمان استاد ڈاکٹر جابر حمزہ بھی موجود تھے۔