Submitted by MSQURESHI on Wed, 11/03/2021 - 19:02
مانو ماڈل اسکول میں یومِ آزاد تقاریب کا رنگا رنگ افتتاح۔ پروفیسر عین الحسن ، پروفیسر خواجہ ناصر الدین و دیگر کے خطاب PressRelease

مانو ماڈل اسکول میں یومِ آزاد تقاریب کا رنگا رنگ افتتاح۔ پروفیسر عین الحسن ، پروفیسر خواجہ ناصر الدین و دیگر کے خطاب

حیدرآباد، 3 نومبر (پریس نوٹ) رسول خدا اور اولیاءاللہ نے ہمیشہ عمل کی تلقین کی ہے۔ عملی زندگی کے ساتھ حساسیت کی بھی ضرورت ہے۔ معاملات کو محسوس کرتے ہوئے کاوشیں کرنا اور ان کے بہتر حل نکالنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے آج مانو ماڈل اسکول، وٹے پلی، فلک نما میں یومِ آزاد تقاریب 2021کی رنگا رنگ افتتاحی تقریب میں کیا۔ یومِ آزاد تقاریب 11 نومبر کو یومِ آزاد یادگاری خطبہ پر ختم ہوں گی۔ پروفیسر خواجہ ناصر الدین، ڈائرکٹر وی آر کے ویمنس میڈیکل کالج، ٹیچنگ ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سنٹر مہمانِ خصوصی تھے۔ افتتاحی تقریب میں ماڈل اسکول کے طلبہ نے مختلف ثقافتی پروگرام پیش کیے جس میں پہلی اور دوسری جماعت کی طالبات کا استقبالیہ گیت، حمیرا اینڈ گروپ کا کرونا کے خلاف پیام، اشفاق اینڈ گروپ کا یوگا کا مظاہرہ، فاطمہ اینڈ گروپ کا تمثیلی پرفارمنس رٹا مار، افضل اینڈ گروپ کا سلوموشن کرکٹ پلے، عمر فاروق کی خود کلامی (بطور مولانا آزاد) مظاہرہ، فوزیہ اینڈ گروپ کووِڈ پر مبنی اسکٹ، فاروق اینڈ گروپ کا اتحاد کشش ثقل کا تریاق، آٹھویں جماعت کے طلباءو طالبات کا چارٹ ڈرل، نشاط او ران کے گروپ کا تمثیلی مزاحیہ مشاعرہ شامل ہیں۔ اس موقع پر دسویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ کو عمدہ تعلیمی مظاہرہ پر انعامات و اسناد تقسیم کیے گئے۔
پروفیسر عین الحسن نے عمل کے سلسلے میں مثال دیتے ہوئے کہا کہ 1757 ءمیں انگریزوں نے جنگ پلاسی میں جب بنگال فتح کیا تو انہوں محسوس کیا کہ وہ دہلی بھی فتح کرسکتے ہیں اور انہیں 1857 ءمیں کامیابی ملی۔ پھر انگریزوں نے محسوس کیا کہ ہندوستان کو چھوڑ دینا چاہیے۔ انہیں ہندوستان کو آزاد کرنے 90 سال لگے۔ انہوں نے ماڈل اسکول کے طلبہ کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ جب یہ طلبہ یونیورسٹی آئیں گے تو خود وائس چانسلر خود ان کا خیر مقدم کریں گے۔اسکولی طلبہ کے تمثیلی مزاحیہ مشاعرہ سے متاثر ہوکر پروفیسر عین الحسن نے مرزا غالب پر ایک نہایت دلچسپ مزاحیہ نظم پیش کرتے ہوئے سماں باندھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ مانو ماڈل اسکول واقعی دیگر اسکولوں کے لیے ایک مثال ہے۔ یہاں کے بچوں کے کاکردگی انتہائی معیاری ہے۔ چاہے ان کے پیش کیے گئے ثقافتی پروگرام ہوں یا ان کی تعلیمی قابلیت ہر دو میں ان کا ہنر صاف جھلکتا ہے۔
مہمانِ خصوصی پروفیسر خواجہ ناصر الدین نے اپنی تقریر میں مولانا آزاد کے افکار کے حوالے سے مشورہ دیا کہ طلبہ اپنے زندگی کو بامعنی و بامقصد بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی کارکردگی سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا ثبوت دینا چاہیے تاکہ اس سے دوسرے لوگ متاثر ہوں اور وہ بھی اچھے کام انجام دیں۔ انہوں نے سرسید کی تعلیمی تحریک کو ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کا محرک قرار دیا اور کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد بھی اس سے متاثر تھے۔ انہوں نے اساتذہ کو مشورہ دیا کہ وہ قطرہ میں دریا کو دیکھیں اور اپنے طلبہ کے بہتر مستقبل کی فکر کریں۔ انہوں نے غبارِ خاطر سے ایک سبق آموز کہانی سنائی۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے کہا کہ طلبہ نے محض 10 یومِ میں اتنے عمدہ ثقافتی پروگرام تیار کیے اور انہیں اسٹیج کیا۔ اس کے لیے طلبہ اور تیاری کروانے والے اساتذہ قابل مبارکباد ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں مولانا آزاد کے 5 نکات کا احاطہ کیا۔ اس میں عمدہ تخلیق سے زیادہ تحقیق کی روش، مصمم ارادہ، سچائی اور حق گوئی ، خودداری اور قومی اتحادشامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا آزاد نے مصمم ارادہ کیا کہ آزادی حاصل کریں گے، مسلمانوں کو تحریک آزادی سے جوڑیں گے اور ہندوستان کے تعلیمی نظام کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔ اور ان سبھی پر انہیں کامیابی ملی۔ جب جج کے سامنے انہیں موقع تھا کہ وہ تحریک آزادی سے دستبرداری کا اظہار کرتے ہوئے سزا سے بچ جائیں انہوں نے سچائی اور نڈر پن کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ وہ جدوجہد آزادی میں کافی عرصہ سے شامل ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔ اسے قول فیصل کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج و صدر نشین یومِ آزاد تقاریب انتظامی کمیٹی نے کہا کہ مولانا آزاد نے ہمیشہ اتحاد و ترقی کی کوشش کی۔ اتحاد کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ مولانا نے خواتین کی ترقی پر بھی توجہ دی۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ راسق العقیدہ مسلمان ہیں اور ایک اچھے ہندوستانی بھی اور یہ دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ مولانا نے عالمی بھائی چارہ کی بھی وکالت کی۔ جس پر عمومی طور پر بات نہیں کی جاتی۔ پروفیسر محمود صدیقی نے کہا کہ تعلیمی اداروں کی تین ذمہ داریاں ہیں۔ درس و تدریس ، تحقیق اور سماجی خدمت۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بعد سماج کے لیے کچھ نہ کچھ بہتر کام انجام دینا چاہیے۔
اس موقع پر ڈاکٹر سید فتح اللہ بختیاری، اردو ٹیچر کی کتاب ”انتخاب رباعیاتِ عمر خیام کا رسم اجرائ“ عمل میں آیا۔ اس میں عمر خیام کی منتخب رباعیات کا اردو، انگریزی اور تلگو ترجمہ موجود ہے۔ ابتداءمیں ڈاکٹر کفیل احمد، پرنسپل ماڈل اسکول و کنوینر پروگرام نے خیر مقدمی خطاب میں جشن کی تفصیلات پیش کیں اور ماڈل اسکول کے بارے میں بتایا۔ اساتذہ ڈاکٹر سید فتح اللہ بختیاری اور ڈاکٹر فہیم اشرف نے کاروائی چلائی۔ محترمہ آسیہ تحسین انجم ، صدر معلمہ نے شکریہ ادا کیا۔ عمر فاروق، طالب علم کی قرا ¿ت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر ڈاکٹر احمد، کنوینر یومِ آزاد تقاریب، پروفیسر مشتاق احمد آئی پٹیل، پروفیسر محمد فریاد اور پروفیسر محمد عبدالسمیع صدیقی بھی موجود تھے۔ پروگرام کا مانو آئی ایم سی یوٹیوب چیانل پر راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔
  عابد عبدالواسع
پبلک ریلیشنز آفیسر