تعلیم نو بالغان پراجیکٹ کے زیر اہتمام چار روزہ تربیتی پروگرام کا انعقاد
حیدرآباد، 31 دسمبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، کالج آف ٹیچر س ایجوکیشن ، دربھنگہ کیمپس میں اقوامِ متحدہ آبادی فنڈپروگرام کے تعاون سے منعقدہ تعلیم نو بالغان پروگرام کے زیر اہتمام 27 تا 30 دسمبر مدرسہ ”ریسورس سینٹر کی تفہیم ، افعال اور استحکام“ کے زیر عنوان چار روزہ تربیتی پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا۔ ٹریننگ کے دوران مختلف موضوعات پر 20 سیشن ہوئے جس میں جملہ 26 مدرسہ ریسورس سنٹرس سے 104 ٹرینرس اور فیسلیٹیٹرس نے تربیت حاصل کی ۔ پراجیکٹ ڈائرکٹر پروفیسر محمد شاہد نے تعلیم نو بالغان پروگرام کی نوعیت، حصہ دار اور توقعات کے موضوع پر خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت، بہار اب ہر 40 مدارس پر ایک مدرسہ ریسورس سینٹر قائم کر رہی ہے جس کے تحت پورے بہار میں جملہ 50 مدرسہ ریسورس سنٹر قائم ہوں گے۔ اب تک 26 مدرسہ ریسورس سنٹر کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ اسی ضمن میں مدرسہ ریسورس سنٹر کے افعال اور استحکام سے متعلق یہ تربیتی پروگرام منعقد ہوا ۔
اقوام متحدہ آبادی فنڈ کے ذریعہ تعلیم نوبالغان پراجیکٹ کا بہار کے منتخب اضلاع میں آغاز کیا گیا تھا۔ بعد میں حکومت بہار کی جانب سے اسے پوری ریاست میں نافذ کیا گیا۔
پروفیسر شاہد نے مزید کہا کہ تعلیم نوبالغان پروگرام کے زیر اہتمام جملہ 1871 مدرسہ اساتذہ کو تربیت دی گئی ہے ۔ 900 مدرسہ پرنسپل کو اورینٹیشن دیا گیا، 818 پرنسپل نے دریچہ آگہی ماڈیول کی سرگرمیوں کو مدرسہ میں نافذ کرنے کے متعلق میٹنگ میں شرکت کی ، 774 مدارس ملحقہ میں ماڈیول کی سرگرمیوں کو شروع کر دیا گیا ہے۔ مزید 3 ریجنل ریسورس سنٹر کے 2523 طلباءو طالبات نے تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے والی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ جملہ 811 مدراس ملحقہ میں اسمبلی کا مو ¿ثر انعقاد ہو رہا ہے۔
اسسٹنٹ پراجیکٹ کوارڈینیٹر ڈاکٹر فخرالدین علی احمد نے مدرسہ ریسورس سنٹر ماڈل کے لائحہ عمل ، سرگرمیوں ،ماحصل اور مستقبل کی ترجیحات پر روشنی ڈالی۔ پراجیکٹ منیجر فرمان خان نے فیلڈ رپورٹنگ کو پیش کیا۔ اسسٹنٹ پراجیکٹ کوارڈینیٹر ڈاکٹر افروز عالم نے عملی میدان میں پیچیدہ معاملات کو کس طرح حل کریں کے موضوع پر تفصیلی بحث کی۔ پروفیسر محمد فیض احمد، پراجیکٹ کوارڈینیٹرنے مرکز کی ٹیم کو در پیش مسائل اور ٹیم کی مضبوطی پر پُر مغز باتیں کیں۔ چاند انصاری ، اسسٹنٹ پراجیکٹ کوآرڈینیٹرنے تعلیم نو بالغان کی سرگرمیوں کو مو ¿ثرطریقہ سے نافذ کرنے پر سیر حاصل بحث کی ۔
یو این ایف پی اے کی جانب سے جناب نین مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کا تفصیلی خاکہ پیش کیا۔ فیڈبیک سیشن کا انعقاد اسسٹنٹ پراجیکٹ کوارڈینیٹر ڈاکٹر شفاعت احمد نے کیا جبکہ اسسٹنٹ پراجیکٹ کوارڈینیٹر جناب سونو رجک نے نظامت کے فرائض انجام دئےے۔ ٹریننگ پروگرام میں ریجنل ریسورس سنٹر کوآرڈینیٹرس جناب زکریا رضا ،محمد اکرا م ،محمد ناظر،ڈاکٹر مجاہد ،سرفراز ،جنید،شہاب الدین، عبید العلی، پرینکا، فرحان ہاشمی وغیرہ نے شرکت کی۔ شفیق احم، پراجیکٹ ریسرچ فیلو نے گروپ سرگرمی کو دلچسپ اور معیاری بنانے میں اہم رول ادا کیا ۔ آخر میں شرکاءمیں اسناد کی تقسیم عمل میں آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسرنسیم الدین فریس ایک بہترین محقق و نقاد اور مثالی استاد
اُردو یونیورسٹی میں ڈین اسکول آف لینگویجس کی وداعی تقریب۔ پروفیسر رحمت اللہ و دیگر کے خطاب
حیدرآباد، 2 جنوری (پریس نوٹ) کسی انسان کی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ لوگ پیٹھ پیچھے اس کی تعریف و ستائش کریں۔ بہت کم لوگوں کو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ پروفیسر محمد نسیم الدین فریس ایسی ہی شخصیت کے حامل ہیں۔ وہ ایک بہترین محقق، نقاد، مثالی استاد کے علاوہ ایک نہایت شریف النفس انسان ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی نے جمعہ کو پروفیسر محمد نسیم الدین فریس، ڈین اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات، صدر شعبہ ¿ اردو اور ڈائرکٹر انچارج، ہارون خان شروانی مرکز برائے مطالعاتِ دکن کے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوشی کے موقع پر منعقدہ الوداعی تقریب میں صدارتی خطاب کے دوران کیا۔ انھوں نے پیشرو مقررین کے حوالے سے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ محقق و ٹیچر کو کسی سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے لیکن پروفیسر نسیم الدین کی شخصیت ایسی ہے کہ ان سے ہر کوئی مرعوب ہوجاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے مانو کے ابتدائی دور میں پروفیسر نسیم الدین نے ان کے مضامین میں زبان کے حوالے سے تصحیح کی اور ان کی رہنمائی بھی کی اسی لیے انھیں وہ اپنا استاد سمجھتے ہیں۔
پروفیسر محمد نسیم الدین فریس نے کہا کہ مجھے شعبے اور اسکول میں مختلف حیثیتوںمیں کام کرنے کے دوران ساتھی اساتذہ، اراکین وغیرہ کا بھرپور تعاون ملا۔ اسی کی بدولت کئی اہم کام پایہ تکمیل کو پہنچے۔ ان میں عصری سہولتوں سے لیس اسکول آف لینگویجس کا سمینار ہال بھی شامل ہے۔ اسی طرح مختلف کمیٹیوں میں بھی جس کا میں صدر نشین تھا، ساتھی اراکین کی محنتوں سے مختلف امور بحسن خوبی انجام پائے۔میں اپنی جامعہ کے تمام تدریسی وغیر تدریسی عملے کے ساتھیوںاور طلباکا شکر گذار ہوں۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج نے کہا کہ جہاں دکنیات میں پروفیسر فریس کو اتھاریٹی حاصل ہے وہیں تصوف پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی پروفیسر فریس سے وہ کوئی سوال کرتے ہیں، چاہے ان کے مضمون سے متعلق ہو یا نہ ہو،وہ ضرور جواب دیتے اور جو بات انھیں نہیں معلوم ہوتی، پوری تحقیق کر کے اس کا جواب دیتے ہیں۔
وداعی تقریب میں شعبہ اردو کے استاد پروفیسر محمد فاروق بخشی نے نسیم الدین فریس صاحب کی سیرت و شخصیت کے مختلف گوشوں کا احاطہ کیا اور ان کے حوالے سے ایک تہنیتی نظم پیش کی۔پروفیسر پی فضل الرحمن، پروفیسر عزیز بانو، پروفیسر سنیم فاطمہ، پروفیسرمحمد فریاد، پروفیسر ایم ونجا، پروفیسر شاہدہ، پروفیسر شاہد نوخیز، پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی، ڈاکٹر محمد یوسف خان، پروفیسر کرن سنگھ اٹوال، ڈاکٹر امتیاز حسن، ڈاکٹر عرشیہ اعظم، ڈاکٹر ابو شہیم خان، جناب ہاشم علی ساجد، ڈاکٹر جمال الدین خان، ڈاکٹر بی بی رضا خاتون، ڈاکٹر قیصر احمد، ڈاکٹر پٹھان رحیم خان ، ڈاکٹر رضوان احمد، ڈاکٹر مبشر احمد، ڈاکٹر امتیاز عالم، جناب محمد مجاہد علی، جناب ابرار احمد، جناب حبیب اللہ، ڈاکٹر ابوہریرہ، ڈاکٹر جابرحمزہ، ڈاکٹر بدر سلطانہ نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ پروفیسر عبدالسمیع صدیقی نے بھی شرکت کی۔ پروفیسر مسرت جہاں نے شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر فیروز عالم، اسسٹنٹ پروفیسر اردو نے کارروائی چلائی ۔ عبدالواحد مرغوب ، متعلم ایم اے، اردو سال دوم کی قرات کلام پاک سے جلسے کا آغاز ہوا۔