Submitted by MSQURESHI on Tue, 02/01/2022 - 16:46
پروفیسر اشتیاق احمد اُردو یونیورسٹی کے نئے رجسٹرار PressRelease

 پروفیسر اشتیاق احمد اُردو یونیورسٹی کے نئے رجسٹرار

حیدرآباد، یکم فروری (پریس نوٹ) ہند- ایرانی ادب کے ماہر اور ممتاز فارسی اسکالر پروفیسر اشتیاق احمدنے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے رجسٹرار کی حیثیت سے عہدہ کا جائزہ حاصل کرلیا۔ پروفیسر اشتیاق احمد کا تعلق سنٹر فار پرشین اینڈ سنٹرل ایشین اسٹڈیز، جواہرلال نہرو یونیورسٹی سے ہے۔ وہ ہند-ایرانی ادب، عصری فارسی ادبیات، اڈوانس ٹرانسلیشن اینڈ انٹرپرٹیشن، ثقافتی مطالعات (فارسی دنیا) کے ماہر ہیں۔ انہوں نے آج وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن کی موجودگی میں پروفیسر صدیقی محمد محمود ، رجسٹرار انچارج سے اپنی نئی ذمہ داری کا جائزہ حاصل کیا۔ اس موقع پر پروفسیر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر، پروفیسر حسیب الدین قادری، ڈائرکٹر آئی کیو اے سی؛ پروفیسر عبدالعظیم، پراکٹر؛ پروفیسر سید علیم اشرف جائسی، ڈین بہبودی طلبہ؛ پروفیسر سنیم فاطمہ، ڈین اسکول آف مینجمنٹ اینڈ کامرس؛ پروفیسر رضاءاللہ خان، ڈائرکٹر انچارج نظامت فاصلاتی تعلیم؛ ڈاکٹر پی ایس منور حسین، انچارج فینانس آفیسر؛ ڈاکٹر محمد زائر حسین،کنٹرولر امتحانات بھی موجود تھے۔
پروفیسر اشتیاق احمدکو اپنے کیریئر کے ابتدائی ایام میں مختلف وزارتوں اور وزرا کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہے۔ انھوںنے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں دفترِ وزیر اعظم میں بھی خدمات انجام دیں۔فارسی زبان سے خاطر خواہ واقفیت کے مد نظر انھیں وزیر اعظم کے اپریل2001 کے دورہ ¿ ایران کے وفد میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ انھوںنے سابق مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کے ماتحت بھی کام کیا ہے۔
پروفیسر اشتیاق احمد کو زائد از22 سال کا تحقیقی و تدریسی تجربہ حاصل ہے ۔ ان کی نگرانی میں 17 اسکالرس نے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی جبکہ مزید 8 کی پی ایچ ڈی جاری ہے۔ 25 اسکالرس نے ان کی رہنمائی میں ایم فل کیا ہے۔ آپ نے کئی تحقیق پروجیکٹ مکمل کیے ہیں جن میں یوجی سی کا میجر ریسرچ پروجیکٹ ”عہد مغلیہ میں تعلیمی نظام :فارسی دستاویزات کے آئینے میں“ خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ وہ علامہ طباطبائی یونیورسٹی ، تہران اورانسٹی ٹیوٹ آف ہیومنٹیز اینڈ لینگویجز، سعدی فاﺅنڈیشن میں خصوصی لیکچر پیش کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اپریل 2019ءمیں تہران میںمنعقدہ 32ویں بین الاقوامی کتاب میلے میں بطور مہمانِ اعزازی مدعو کیا گیا تھا۔ وہ یونیورسٹی جرنل، علامہ طباطبائی یونیورسٹی، تہران اور پرشین ریسرچ جرنل، یونیورسٹی آف مازنداران، ایران کے ایڈیٹوریل بورڈ کے رکن ہیں۔ موصوف وزارت خارجہ کے انٹر نیشنل ٹیکنکل اکانومک کوآپریشن کی جانب سے جے این یو میںمنعقدہ سہ ماہی ٹریننگ پروگرام کے کوآرڈنیٹر رہے ہیں جو خاص طور سے غیر ملکی ڈپلومیٹس اور پروفیشنلس کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔پروفیسر اشتیاق احمد لنگوسٹک امپاورمنٹ سیل ،جے این یو کے چیف کوآرڈنیٹر اور یوینیورسٹی کی کلچرل افیئرس کمیٹی، سیکیوریٹی کمیٹی اور جے این یو الومنائی کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف تعلیمی اداروں اور کمیشنوں کے بھی رکن وابستہ ہیں۔پروفیسر اشتیاق احمد کو ایران، افغانستان، ترکی، بنگلہ دیش، مصر، جاپان، امریکہ، فرانس، پاکستان وغیرہ مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے سمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔
زبانِ فارسی در ہند ،مولانا ابوالکلام آزاد: معمار فرہنگ ہندوایرانی، ایرانی سیاست میں علما اور روشن فکران کا حصہ اور انیمل فابلس فرام ماڈرن پرشیا (شریک مصنف) آپ کی اہم تصانیف میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ موصوف کے چالیس سے زیادہ تحقیقی مقالے مختلف بین الاقوامی اور قومی رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ مانو کی اساتذہ برادری اور غیر تدریسی عملے کے اراکین نے رجسٹرار کے عہدے پرپروفیسر اشتیاق احمد کی تقرری پر اپنی مسرت کا اظہار کیا ہے۔

 

ڈاکٹر محمد زائر حسین مانو کے نئے کنٹرولر امتحانات

٭٭ قبل ازیں ڈاکٹر محمد زائر حسین نے 18 جنوری 2022 کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی حیثیت ذمہ داری سنبھال لی۔ انہوں نے مرزا فرحت اللہ بیگ کے اپنے عہدہ کا جائزہ حاصل کیا۔ وہ اس سے قبل مانو آئی ٹی آئی ، بنگلور میں بحیثیت انچارج پرنسپل ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔ ان کا مارچ 2015ءمیں بحیثیت اسوسیئٹ پروفیسر آئی ٹی پالی ٹیکنیک ، حیدرآباد تقرر عمل میں آیا تھا۔

 

مانو میں روزگار اعلامیوں کی آخری تاریخ میں توسیع
حیدرآباد، یکم فروری (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں مختلف تدریسی و غیر تدریسی عہدوں کے لیے جاری کردہ اعلامیے نمبر 62 اور 63 کے لیے فارم داخل کرنے کی آخری تاریخ میں 15 فروری تک توسیع کی گئی ہے۔ اس سے قبل فارم داخل کرنے کی آخری تاریخ 2 فروری مقرر تھی۔ کووڈ 19 مانیٹرنگ ٹاسک فورس کمیٹی کی نے ملک بھر میں وبائی صورت حال کے پیش نظر کی گئی نمائندگی کا جائزہ لیتے ہوئے تاریخ میں توسیع کی آج ہی سفارش کی تھی جس کے بعد یونیورسٹی نے اس توسیع کا اعلان کیا۔ اب، خواہشمند امیدوار پُر کردہ فارم 15 فروری تک داخل کرسکتے ہیں۔

اردو یونیورسٹی میں شہزادی نیلوفر پر پروفیسر بتول بشاران کا خصوصی لیکچر

حیدرآباد، یکم فروری (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ہارون خان شیروانی سنٹر فار دکن اسٹڈیز کے زیر اہتمام کل ایک آن لائن خصوصی لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ پروفیسر بتول بشاران، پروفیسر تاریخ و کوآرڈینیٹر خواتین، جنس، اور مطالعہ ¿ جنسیت ، سینٹ میریز کالج آف میری لینڈ، امریکہ نے آن لائن لیکچر پیش کیا۔ اس میں انہوں نے شہزادی نیلوفر کی زندگی کے مختلف پہلوﺅں پر روشنی ڈالی۔ لیکچر کی صدارت پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے کی۔یہ لیکچر پروفیسر بتول بشاران کی تحقیق کا حصہ تھا۔ مانو کا مرکز برائے مطالعاتِ دکن اور مرکز برائے تاریخی مطالعات، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی ہندوستان میں پروفیسر بشارن کے میزبان ادارے ہیں۔
پروفیسر بتول نے بتایا کہ جب شہزادی نیلوفر 7 سال کی تھیں تو سلطنت عثمانیہ کا باضابطہ طور پر زوال ہوچکا تھا۔ شہزادی کو 1924 میں استنبول چھوڑ کر اپنی والدہ کے ساتھ فرانس منتقل ہونا پڑا جہاں انہوں نے اردو کے ساتھ فرانسیسی پڑھنا اور لکھنا بھی سیکھا۔ 1931 میں نیس، فرانس میں شہزادی نیلوفر کی شادی نظامِ دکن میر عثمان علی خان کے چھوٹے شہزادے معظم جاہ سے ہوئی۔ اس طرح حیدرآباد کے ساتھ ان کے رشتے کا آغاز ہوا۔ یہاں قیام کے دوران انہوں نے سماجی مخیر خاتون کا کردار ادا کیا۔ پروفیسر بتول بشاران کے مطابق 1933 اور 1948 کے درمیان، نیلوفر ایک فیشن کی علامت بن گئی تھیں۔ ان کے ذریعے دنیا حیدرآباد سے روشناس ہوئی۔ ان کی ساڑیاں، زیورات کا انتخاب، ان کا طرزِ زندگی پوری دنیا میں موضوعِ بحث بن گیا تھا۔ ان کا شمار دنیا کی دس خوبصورت ترین خواتین میں ہوتا تھا۔ شہزادی نیلوفر کی حسن کا پرتو ان کی فلاحی خدمات میں نظر آتا ہے۔ ان کا سماجی خدمت کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، خواتین اور بچوں کی صحت کے مسائل کے تدارک کی کوششیں، اس مقصد کے لیے ویمن اینڈ چلڈرن میڈیکل ایڈ ایسوسی ایشن کا آغاز ، جس نے بعد میں مشہور زمانہ نیلوفر اسپتال کی شکل اختیار کرلی نے انہیں لازوال شہرت اور عزت دلائی۔
پروفیسر بتول کی تحقیق بنیادی طور پر ماقبل جدید حیدرآباد ریاست میں سیاست، مذہب اور مسلم خواتین کی سرگرمیوں پر مرکوز ہے۔ انہوں نے ”اخلاقی سیاسی طاقت“ کا جائزہ لیا ہے جو اس وقت کے سماجی ڈھانچے کو چیلنج کرتا ہے اور نظام میر عثمان علی خان کے جدت پسندی کے ایجنڈے کی حمایت کرتا ہے۔ پروفیسر بتول نے اپنے لیکچر کے ذریعہ بہتر سماجی موقف، تعلیم اور طبی سہولتوں، پسماندہ خواتین کو با اختیار بنانے میں طبقے رو ¿ساءکی بیگمات کے عالمی کردار کو اجاگر کیا۔
 مرکز برائے مطالعاتِ دکن کی ڈائرکٹر پروفیسر سلمیٰ احمد فاروقی اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اے سبھاش منتظم تھے۔ دنیا کے مختلف حصوں سے اساتذہ اور ممتاز شخصیتوں نے آن لائن لیکچر سے استفادہ کیا۔