چاند بی بی سلطان: دکن کی ایک جنگجوحکمراں خاتون
اردو یونیورسٹی میں ڈاکٹر سارہ فاطمہ وحید کا توسیعی خطبہ
حیدرآباد، 4 جون (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یو نی ورسٹی میں شعبہ تعلیمِ نسواں اور شعبہ تاریخ کے اشتراک سے 2 جون کو توسیعی خطبہ بہ عنوان ” چاند بی بی سلطان: دکن کی ایک جنگجوحکمراں خاتون“ منعقد کیا گیا۔ فل برائٹ اسکالر و پروفیسر، شعبہ تاریخ، ڈیویڈسن کالج، امریکہ، ڈاکٹر سارہ فاطمہ وحید نے اس موضوع پر پاور پوائنٹ پریزینٹیشن کے ذریعے چاند بی بی سلطان کے متعلق نہاےت معلوماتی خطبہ پیش کیا۔ انھوںنے بتایا کہ ماضی میں لکھی گئی فارسی، اردو یا دیگر زبانوںکی تواریخ میں چاند بی بی سلطان کے حالاتِ زندگی اور ان کی جنگجوئی کے واقعات کا سرسری ذکر کیا گیا ہے۔ چاند بی بی ایک ایسی خاتون حکمراں تھیں جس نے احمد نگر اور بیجا پور دونوں ریاستوں پر بیک وقت حکومت کی تھی۔ اس نے نہ صرف شہنشاہ اکبر کی فوج کو مسلسل ہرایا تھا بلکہ اپنے اطراف واکناف کی ریاستوں کے حملوںکا بھی بڑی بہادری سے مقابلہ کیا تھا۔ نہ صرف ماضی میں لکھی گئی تاریخیں چاند بی بی کے متعلق خاموش ہیں بلکہ نوآبادیاتی ہندوستان اور مابعد آزادی لکھی گئی تاریخی کتابوں میں بھی کچھ خاص معلومات دستیاب نہیں ہیںبلکہ جو مواد دستیاب ہے وہ شک وشبہات سے بھرا ہواہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چاند بی بی کی بہادری اور جنگجوئی کو صرف ایک کہانی کی حد تک ہی پیش کیا گیا اور کبھی وہ کہانی نصاب کا حصّہ ہوا کرتی تھی۔ ڈاکٹر سارہ نے اپنے خطاب میں بتایا کہ ریاستِ احمد نگر اور بیجاپور میں جہاں چاند بی بی نے حکومت کی تھی اس کے متعلق عوامی سطح پر بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کتابوں سے زیادہ چاند بی بی عوام بلکہ خواتین کی زبانی روایتوں، کہانیوں اور قصوں میں زندہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ چاند بی بی سلطان پر تحقیق کے ضمن میںیہی زبانی تاریخ، فی زمانہ موجود تاریخی آثار، آرکائیوز میں موجود مسودات اور پینٹنگس نیز تاریخی کتابیں وہ اہم ماخذات ہیں جن کے مطالعے اور تجزیے سے حقائق کی بازیافت ہو سکتی ہے۔ انھیں خوشی ہے کہ اس موضوع پر تحقیق کے لیے انھیں فل برائٹ اسکالر شپ دی گئی اور امریکہ سے ہندوستان آنے اور دکن کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے اور تاریخی آثار کامطالعہ کرنے کا انھیں موقع ملا۔
پروگرام کی ابتداءمیںڈاکٹر آمنہ تحسین، صدر شعبہ تعلیمِ نسواں نے تمام شرکاءبشمول مہمان مقرر کا خیر مقدم کیا اور موضوع سے متعلق ایک جامع تعارف پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ مرد اساس معاشروں میں صنفی تعصبات کا غلبہ رہا۔ جس کے نتیجے میںخواتین کے کارناموں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی عظیم اور بہادر خواتین کے کارنامے بھی تاریخ کی کتابوں کاحصّہ نہیں بن پائے۔ خواتین کی بااختیاری کے تناظر میں بالخصوص مسلم خواتین کے کارناموں کو اجاگر کر نے کی زیادہ ضرورت ہے ۔ ایسے میں ہمارے لیئے چاند بی بی سلطان کی مثال اہم ثابت ہوتی ہے۔ اس پروگرام کی صدارت ڈاکٹر دانش معین‘ صدر شعبہ تاریخ نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر سارہ کے معلوماتی خطاب کی ستائش کی اور اسے ریسرچ اسکالرز کے لیئے نہایت فائدہ مند قرار دیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ تاریخ کی کتابیں نہ صرف حکمراں یا شاہی خواتین کے کارناموں سے خالی ہیں بلکہ ہم ان عام خواتین کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے جن کے کارناموں کی وجہ سے تہذیب وتمدن کا ارتقاءہوا ہے۔ ہندوستان میں ایسی کئی خواتین رہی ہیں جنھوں نے مختلف شعبوں میں اپنی بصیرت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے یہ توسیعی خطبہ اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے اس موضوع پر مزیدتحقیق کے لئے مراٹھی زبان کے مواد سے استفادہ کا مشورہ دیا۔ پروگرام کو آرڈینیٹر ڈاکٹر پروین قمر‘ اسسٹنٹ پروفیسر ‘ شعبہ تعلیمِ نسواں نے نظامت کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیئے۔ جبکہ ڈاکٹر خالد اسسٹنٹ پرفیسر ‘ شعبہ تاریخ نے ہدیہ تشکر پیش کیا۔ اس پروگرام میں اساتذہ کے علاوہ اسکالرز اور طلبہ کی کثیر تعداد شامل تھی۔
اردو یونیورسٹی میں ڈاکٹر سارہ فاطمہ وحید کا توسیعی خطبہ
PressRelease