اردو یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم میں طبی صحافت پر یونیسیف کا دو روزہ ورکشاپ ۔ ماہرین کی مخاطبت
PressRelease
کووڈ نے اہم چیلنجوں سے نمٹنے کا فن سکھایا۔ پروفیسر عین الحسن
اردو یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم میں طبی صحافت پر یونیسیف کا دو روزہ ورکشاپ ۔ ماہرین کی مخاطبت
حیدرآباد ، 16 جون (پریس نوٹ) کووڈ 19 نے ہمارے جینے کے انداز کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور اس نے ہمیں اہم چیلنجوں سے نمٹنے کا فن سکھایا ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی پہلا ایسا اعلیٰ تعلیمی ادارہ تھا جس نے تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ کیمپس میں آف لائن تعلیم کا آغاز کیا۔ ہمیں بحیثیت مجموعی کووڈ 19 اور اس کے بچاﺅ یعنی ویکسینیشن کے بارے میں آگاہی پیدا کرتے رہنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے طبی صحافت پر دو روزہ ورکشاپ بعنوان ’ضروری جانچ پرکھ کی مہارتیں‘ (سی اے ایس) کے افتتاحی اجلاس میں کیا۔ ورکشاپ یونیسف اور شعبہ ترسیل عامہ و صحافت، اردو یونیورسٹی کے زیر اہتمام 15 اور 16 جون کو یہاں ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن کے کانفرنس ہال میں منعقد کیا گیا۔ ورکشاپ میں کووڈ 19 وباءکے دوران ضروری جانچ پرکھ کی مہارتوں کے کردار اور نصاب کی تجدید پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا نیز مختلف یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے کورس کے سابقہ اور موجودہ طلبہ کو تہنیت پیش کی گئی۔
سی اے ایس کورس کو یونیسیف نے آکسفورڈ یونیورسٹی، تھامس رائٹرس اور آئی آئی ایم سی کے ساتھ مل کر 2014 میں صحت کے شعبہ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور صحافت کے طلبہ کے لیے تیار کیا ہے ۔ جسے بعد میں مانو اور آئی آئی ایم سی نے اپنالیا۔
ورکشاپ کا افتتاحی خطبہ دیتے ہوئے اسکول ترسیل عامہ و صحافت کے ڈین پروفیسر احتشام احمد خان نے کہا کہ سی اے ایس ، سائنسی بنیاد پر معلومات کی فراہمی، غلط معلومات کا تدارک، شعور بیداری جیسے معاملات میں صحافیوں کی صلاحیتوں کے فروغ میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔
یونیسیف انڈیا کی چیف آف کمیونیکیشنز اور ایڈوکیسی اینڈ پارٹنرشپس ظفرین چودھری نے سی اے ایس کے سفر اور صحت کے مسائل کی تشہیر میں میڈیا کے نوجوان طلبہ کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ طبی صحافت زندگیوں کو بچانے، صحیح اور بروقت معلومات پھیلانے اور خاص طور پر موجودہ وقت میں کووڈ 19 ویکسینیشن کے بارے میں شعور اجاگر کرنے سے متعلق ہے۔ امیونائزیشن پر قومی تکنیکی مشاورتی گروپ کے صدر نشین ڈاکٹر این کے اروڑا نے ورکشاپ سے بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ خطاب کرتے ہوئے ملک کے کووڈ 19 ویکسینیشن پروگرام کی تفصیلات فراہم کیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کی تاریخ میں ہندوستان میں 97 تا 98 فیصد سے زیادہ لوگوں نے ویکسین کی پہلی جبکہ 88 فیصد لوگوں نے دونوں خوراکیں لی ہیں۔ ڈاکٹر اروڑا نے کہا کہ بڑے پیمانے پر چلائی جانے والی ویکسینیشن مہم کی وجہ سے ہی کووڈ 19 کی تیسری لہر ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہم نے خود اپنی ویکسین تیار کی اور کچھ دوسرے ممالک کو اس کی خوراکیں فراہم کیں۔
پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار نے شریک طالب علموں میں اسنادات تقسیم کیے۔
اردو یونیورسٹی، آئی آئی ایم سی اور ہماچل پردیش یونیورسٹی کے زائد از 120 طلبہ اور شعبہ صحت کے صحافیوں نے ورکشاپ میں حصہ لیا۔ ورکشاپ میں کئی نامور شخصیات جیسے آئی آئی ایم سی، نئی دہلی میں شعبہ انگریزی صحافت کی پروفیسر اور کورس ڈائرکٹر ڈاکٹر سنگیتا پرویندرا، دہرادون میں تعینات امر اجالا کے ایگزیکٹو ایڈیٹر سنجے ابھیگیان اور گو نیوز کے ایڈیٹر پنکج پچوری نے شرکت کی۔ ماہرین نے کہا کہ سی اے ایس طبی صحافی بننے کی پہلی سیڑھی ہے اور اس نے سوچنے کا انداز ہی تبدیل کیا ہے۔ اس دو روزہ ورکشاپ میں حصہ لینے والے طلبہ کو جن کا تعلق مانو کے علاوہ دوسری یونیورسٹیوں سے بھی تھا، پانچ گروپوں میں تقسیم کر کے سی اے ایس کے مختلف کورسز کے بارے میں ماہرین نے رہنمائی فراہم کی۔ نظامت کے فرائض صدر شعبہ پروفیسر محمد فریاد نے انجام دیے۔ اس ورکشاپ میں یونیسف کی کیمونیکشن آفیسر سونیا سرکار اور شعبہ ترسیل عامہ و صحافت کے تمام فیکلٹی اراکین موجود تھے۔
سی اے ایس کورس کو یونیسیف نے آکسفورڈ یونیورسٹی، تھامس رائٹرس اور آئی آئی ایم سی کے ساتھ مل کر 2014 میں صحت کے شعبہ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور صحافت کے طلبہ کے لیے تیار کیا ہے ۔ جسے بعد میں مانو اور آئی آئی ایم سی نے اپنالیا۔
ورکشاپ کا افتتاحی خطبہ دیتے ہوئے اسکول ترسیل عامہ و صحافت کے ڈین پروفیسر احتشام احمد خان نے کہا کہ سی اے ایس ، سائنسی بنیاد پر معلومات کی فراہمی، غلط معلومات کا تدارک، شعور بیداری جیسے معاملات میں صحافیوں کی صلاحیتوں کے فروغ میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔
یونیسیف انڈیا کی چیف آف کمیونیکیشنز اور ایڈوکیسی اینڈ پارٹنرشپس ظفرین چودھری نے سی اے ایس کے سفر اور صحت کے مسائل کی تشہیر میں میڈیا کے نوجوان طلبہ کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ طبی صحافت زندگیوں کو بچانے، صحیح اور بروقت معلومات پھیلانے اور خاص طور پر موجودہ وقت میں کووڈ 19 ویکسینیشن کے بارے میں شعور اجاگر کرنے سے متعلق ہے۔ امیونائزیشن پر قومی تکنیکی مشاورتی گروپ کے صدر نشین ڈاکٹر این کے اروڑا نے ورکشاپ سے بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ خطاب کرتے ہوئے ملک کے کووڈ 19 ویکسینیشن پروگرام کی تفصیلات فراہم کیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کی تاریخ میں ہندوستان میں 97 تا 98 فیصد سے زیادہ لوگوں نے ویکسین کی پہلی جبکہ 88 فیصد لوگوں نے دونوں خوراکیں لی ہیں۔ ڈاکٹر اروڑا نے کہا کہ بڑے پیمانے پر چلائی جانے والی ویکسینیشن مہم کی وجہ سے ہی کووڈ 19 کی تیسری لہر ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہم نے خود اپنی ویکسین تیار کی اور کچھ دوسرے ممالک کو اس کی خوراکیں فراہم کیں۔
پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار نے شریک طالب علموں میں اسنادات تقسیم کیے۔
اردو یونیورسٹی، آئی آئی ایم سی اور ہماچل پردیش یونیورسٹی کے زائد از 120 طلبہ اور شعبہ صحت کے صحافیوں نے ورکشاپ میں حصہ لیا۔ ورکشاپ میں کئی نامور شخصیات جیسے آئی آئی ایم سی، نئی دہلی میں شعبہ انگریزی صحافت کی پروفیسر اور کورس ڈائرکٹر ڈاکٹر سنگیتا پرویندرا، دہرادون میں تعینات امر اجالا کے ایگزیکٹو ایڈیٹر سنجے ابھیگیان اور گو نیوز کے ایڈیٹر پنکج پچوری نے شرکت کی۔ ماہرین نے کہا کہ سی اے ایس طبی صحافی بننے کی پہلی سیڑھی ہے اور اس نے سوچنے کا انداز ہی تبدیل کیا ہے۔ اس دو روزہ ورکشاپ میں حصہ لینے والے طلبہ کو جن کا تعلق مانو کے علاوہ دوسری یونیورسٹیوں سے بھی تھا، پانچ گروپوں میں تقسیم کر کے سی اے ایس کے مختلف کورسز کے بارے میں ماہرین نے رہنمائی فراہم کی۔ نظامت کے فرائض صدر شعبہ پروفیسر محمد فریاد نے انجام دیے۔ اس ورکشاپ میں یونیسف کی کیمونیکشن آفیسر سونیا سرکار اور شعبہ ترسیل عامہ و صحافت کے تمام فیکلٹی اراکین موجود تھے۔
’گوپی چند نارنگ اردو زبان و ادب کی پہچان تھے“
اردو یونیورسٹی میں تعزیتی نشست۔ پروفیسر رحمت اللہ، پروفیسر عزیز بانو و پروفیسر فاروق بخشی کے خطاب
حیدرآباد، 16 جون (پریس نوٹ) پروفیسر گوپی چند نارنگ عصر حاضر میں اردو زبان و ادب کی پہچان تھے۔ ان کی رحلت اردو دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مانو سے نکلنے والے طلبہ ان کے اس خلاءکو ضرور پُر کریں گے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات کی جانب سے منعقدہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تعزیتی نشست میں کیا۔ معروف ادیب، نقاد محقق پروفیسر گوپی چند نارنگ کا 15 جون کو انتقال ہوگیا تھا۔
ڈین اسکول پروفیسرعزیز بانو نے یونیورسٹی کی جانب سے قرار داد تعزیت میں بتایا کہ آنجہانی اردو یونیورسٹی کی اولین مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔ 2009ءمیں اردو یونیورسٹی کے جلسہ ¿ تقسیم اسناد کے موقع پر انہیں ڈی لٹ کی ڈگری عطا کی گئی تھی۔ انھیں پدم بھوشن، پدم شری جیسے اعزازات سے نوازا گیا تھا۔
پروفیسر فاروق بخشی، صدر شعبہ ¿ اردو نے کہا کہ پروفیسر نارنگ بنیادی طور پر لسانیات کے ماہر تھے۔ انہوں نے عربی مقولہ ”ایک عالِم موت، ایک عالم کی موت ہے“ کا حوالہ دیتے ہوئے پروفیسر نارنگ خدمات کو خراج پیش کیا۔ انہوں نے مثالیں دے کر بتایا کہ پروفیسر نارنگ ایک بہترین منتظم، ایک عمدہ استاد تھے۔
ڈاکٹر ابوشہیم خان، اسوسیئٹ پروفیسر اردو نے بھی آنجہانی اسکالر کی علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ وہ اردو کو محض زبان ہی نہیں بلکہ تہذیب مانتے تھے۔ انہوں نے پروفیسر نارنگ کو جدید اردو تنقید کے سردار اول قرار دیا۔ ڈاکٹر کہکشاں لطیف، اسسٹنٹ پروفیسر ترجمہ نے انہیں نظریہ ساز ادیب و نقاد قرار دیا۔
اس موقع پر پروفیسر سلمان احمد خان، ڈین اسکول آف سائنسس، پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، صدر شعبہ فارسی اور دیگر موجود تھے۔
اردو یونیورسٹی میں تعزیتی نشست۔ پروفیسر رحمت اللہ، پروفیسر عزیز بانو و پروفیسر فاروق بخشی کے خطاب
حیدرآباد، 16 جون (پریس نوٹ) پروفیسر گوپی چند نارنگ عصر حاضر میں اردو زبان و ادب کی پہچان تھے۔ ان کی رحلت اردو دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مانو سے نکلنے والے طلبہ ان کے اس خلاءکو ضرور پُر کریں گے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات کی جانب سے منعقدہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تعزیتی نشست میں کیا۔ معروف ادیب، نقاد محقق پروفیسر گوپی چند نارنگ کا 15 جون کو انتقال ہوگیا تھا۔
ڈین اسکول پروفیسرعزیز بانو نے یونیورسٹی کی جانب سے قرار داد تعزیت میں بتایا کہ آنجہانی اردو یونیورسٹی کی اولین مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔ 2009ءمیں اردو یونیورسٹی کے جلسہ ¿ تقسیم اسناد کے موقع پر انہیں ڈی لٹ کی ڈگری عطا کی گئی تھی۔ انھیں پدم بھوشن، پدم شری جیسے اعزازات سے نوازا گیا تھا۔
پروفیسر فاروق بخشی، صدر شعبہ ¿ اردو نے کہا کہ پروفیسر نارنگ بنیادی طور پر لسانیات کے ماہر تھے۔ انہوں نے عربی مقولہ ”ایک عالِم موت، ایک عالم کی موت ہے“ کا حوالہ دیتے ہوئے پروفیسر نارنگ خدمات کو خراج پیش کیا۔ انہوں نے مثالیں دے کر بتایا کہ پروفیسر نارنگ ایک بہترین منتظم، ایک عمدہ استاد تھے۔
ڈاکٹر ابوشہیم خان، اسوسیئٹ پروفیسر اردو نے بھی آنجہانی اسکالر کی علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ وہ اردو کو محض زبان ہی نہیں بلکہ تہذیب مانتے تھے۔ انہوں نے پروفیسر نارنگ کو جدید اردو تنقید کے سردار اول قرار دیا۔ ڈاکٹر کہکشاں لطیف، اسسٹنٹ پروفیسر ترجمہ نے انہیں نظریہ ساز ادیب و نقاد قرار دیا۔
اس موقع پر پروفیسر سلمان احمد خان، ڈین اسکول آف سائنسس، پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، صدر شعبہ فارسی اور دیگر موجود تھے۔