Submitted by MSQURESHI on Wed, 11/16/2022 - 10:55
سماج کے تئیں اپنی خدمات کے لیے صحافی انتہائی قابل احترام: پروفیسر عین الحسن PressRelease

سماج کے تئیں اپنی خدمات کے لیے صحافی انتہائی قابل احترام: پروفیسر عین الحسن

مانو میں صحافت کے دو سو سالہ جشن "کاروان اردو صحافت" کا بین الاقوامی کانفرنس کے ساتھ اختتام
حیدرآباد، 15نومبر (پریس نوٹ) سماج کے تئیں اپنی خدمات کے لیے صحافی انتہائی احترام کے حقدار ہیں۔ پیشہ صحافت نہایت ہی پُر خطر ہے۔ عمومی طور پر لوگ صحافیوں پر تنقید کردیتے ہیں ۔ لیکن انہیں فسادات اور سخت ترین حالات میں بھی اپنی ذمہ داری نبھانی پڑتی ہے۔ طلبہ کو فیلڈ رپورٹنگ سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے آج شعبہ ترسیل عامہ و صحافت کے زیر اہتمام سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس ”اردو میڈیا: ماضی، حال اور مستقبل“ کے اختتامی اجلاس میں کیا۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد اردو صحافت کے 200 سالہ جشن ”کاروانِ اردو صحافت“ کو یادگار بنانا ہے۔پروفیسر احتشام احمد خان، ڈین اسکول برائے ترسیل عامہ و صحافت نے کانفرنس پر رپورٹ پیش کی۔
مہمانِ خصوصی پروفیسر شافع قدوائی نے کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہاکہ خواتین کی نمائندگی بھی مناسب تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کانفرنسوں میں عمومی طور پر صحافت کے شاندار ماضی کا ذکر ہوتا ہے لیکن یہاں صحافت کے لوازمات پر بھی توجہ دلائی گئی۔
جناب شمیم طارق نے کہا کہ اردو محض عاشقانہ ہی نہیں بلکہ انقلاب کی زبان بھی ہے۔ آزادی میں اردو صحافت کے رول کو سبھی جانتے ہیں۔ بال ٹھاکرے اپنے اخبار پر اردو کا مصرعہ ”جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو“ لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ذریعوں سے اردو کی الفاظ کو پسند کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جناب ستیش جیکب نے کہا کہ اردو محبت کی زبان ہے۔ اردو صحافت نے ملک کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔ ممتاز صحافی جناب عزیز برنی نے اتنی بڑی کانفرنس کے انعقاد پر پروفیسر احتشام احمد اور ان کے رفقاءکی ستائش کی۔ انہوں نے صحافت کی نامور ہستیوں کو مدعو کرنے پر اسے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نے سبرت رائے سہارا کو روزنامہ راشٹریہ سہارا اور ای ٹی وی جیسے چینل کے قیام کے لیے راموجی راﺅ کا ذکر کیا اور ان کی صحافتی خدمات کی ستائش کی۔ انہوں نے عوامی نیوز اور مارننگ نیوز کا بھی ذکر کیا۔
جناب عامر علی خان، منیجنگ ایڈیٹر سیاست نے کہا کہ اردو صحافت کو حالات سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آج کل سرکاری اشتہارات کے باعث صحافیوں کو آزادی سے کام کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ دیگر زبانوں کے بہترین صحافیوں کو جو مسائل کی نشاندہی کرنے والے تھے کو نوکریاں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ جبکہ اردو میڈیا اس سے مبریٰ اور آزادی سے کام کرنے والا رہا ہے۔ کیوں کہ ویسے بھی اردو اخبارات وغیرہ کو سرکاری اشتہارات نہیں ملتے اور ان کے ایڈیٹر عام طور پر مالکان ہی ہوتے ہیں۔
جناب قربان علی نے کہا کہ اردو صحافت کے 200 سال میں 125 سال نہایت تابناک رہے۔ اس دوران اس نے ملک کی آزادی میں نہایت اہم رول ادا کیا۔ لیکن آزادی کے بعد اسے پاکستان میں سرکاری زبان بنادیا گیا جبکہ وہاں پر بہت کم لوگ اس سے واقف تھے اور یہاں پر اسے نظر انداز کردیا گیا۔
ممتاز اینکر امتیاز خلیل نے کہا کہ اردو صحافت کو سرکاری طور پر فائدہ حاصل نہیں ہوا لیکن یہ ہندوستان میں آزادی کے ذریعہ اپنی سرکار کے قیام میں معاون رہی۔ آزادی کے بعد اسے نظر انداز کردیا گیا۔ لیکن اردو صحافت نے باوجود مسائل کے مسلمانوں کے آنسو پونچھنے کا کام کیا۔
ڈاکٹر آنند راج ورما نے کہا کہ اردو ان کی محسن زبان ہے۔ انہوں نے اردو صحافیوں کو انگریزی اور ریاستی زبانیں سیکھنے کا مشورہ دیا۔ جناب جامع حبیب نے کہا کہ اردو صحافت میں عمومی طور پر مسلمانوں کی صحافت نظر آتی ہے۔ ہمیں دیگر مسائل جیسے معاشی، سماجی، دلتوں کے مسائل پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہمارا موضوعات وسیع ہوں اور قارئین و ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہو۔ پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار نے شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر محمد فریاد ، صدر شعبہ ¿ ایم سی جے نے کارروائی چلائی۔ کانفرنس کے دوران دو ڈرامے پیش کیے گئے۔ کاروانِ اردو صحافت کے میں ویڈیو میکنگ مقابلہ میں جملہ 200 ویڈیوز موصول ہوئے ہیں۔