Submitted by MSQURESHI on Wed, 11/30/2022 - 16:47
افسانہ پر سمپوزیم میں پروفیسر عین الحسن کا خطاب ۔ ملک کے نامور افسانہ نگاروں نے افسانے پیش کیے PressRelease

افسانہ میں مختلف ادوار و رجحانات کے تحت تبدیلیاں آئیں

افسانہ پر سمپوزیم میں پروفیسر عین الحسن کا خطاب ۔ ملک کے نامور افسانہ نگاروں نے افسانے پیش کیے

حیدرآباد، 30نومبر (پریس نوٹ) افسانے میں اپنے دور کے مسائل اور حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ افسانوں میں مختلف ادوار اور مختلف رجحانات کے تحت تبدیلیاں آئیں۔ ابتداءمیں جہاں رومانیت نظر آتی ہے، پھر اس میں اخلاقیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اسی طرح مختلف نظریات جیسے کلاسیکیت، مابعد کلاسیکیت، جدیدیت، مابعد جدیدیت جیسے رجحانات کا اثر تمام اصناف سخن پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن افسانہ میں یہ اثرات خصوصیت سے موجود ہیں۔ ان خیالات کا اظہارپروفیسر سید عین الحسن نے شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور ساہتیہ اکادمی ،نئی دہلی کے اشتراک سے سی پی ڈی یو ایم ٹی آڈیٹوریم میں منعقدہ قومی سمپوزیم بہ عنوان ”اردو افسانہ : تجزیہ و تنقید“ کے افتتاحی اجلاس میں صدارتی خطاب کے دوران کیا۔

پروفیسر عین الحسن نے کہا کہ انگریزوں کے دورِ حکومت میں اردو و ہندی ادب میں زمین پر کافی لکھا گیا۔ زمین داروں کا اثر یا انگریزوں کا ہندوستان پر قبضہ اس میں شامل تھا۔ لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ کس طرح غاصب انگریز ہماری زمین پر قبضہ کر رہے ہیں اور ہمیں ان سے آزادی حاصل کرنی ہے۔ اس میں پریم چند کا نام قابل ذکر ہے۔ بعد میں اس موضوع پر فلمیں بھی بنیں۔ افسانہ اس سے اچھوتا نہیں ہے۔ انہوں نے کہانیوں میں شکوک کی گنجائش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شکوک ہوں گے تبھی تحقیق کے ذریعہ یقین پیدا ہوگا۔ عربی ادب کے حوالے سے مثال پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عراقی، مصری، فلسطینی ادب میں ہمیں اسرائیل کے متعلق درد مل جائے گا۔

مہمانِ خصوصی جناب شفیع مشہدی، ممتاز افسانہ نگار اور سابق افسر، بہار ایڈمنسٹریٹو سروس، پٹنہ نے کہا کہ اردو کی موجودہ حالت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے لیے لسانی سطح پر ہمیں کچھ کرنا پڑے گا۔ محض تخلیق سے کام نہیں چلے گا۔ اگر زبان ختم ہوجائے گی تو ایک تہذیب کو نقصان پہنچے گا۔ ہمیں اردو کے کاز کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار نے کہا کہ اس سمینار میں تنقید کے ساتھ تخلیق کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ چنانچہ آج ممتاز افسانہ نگار یہاں موجود ہیں اور ہم ان سے ان کی تخلیقات سماعت کریں گے۔ مہمانِ اعزازی پروفیسر عزیز بانو ڈین اسکول براے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے بھی خطاب کیا۔ صدر شعبہ اردو اور سمپوزیم ڈائرکٹرپروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی نے استقبالیہ خطاب پیش کیا۔ سمپوزیم کے کنوینر ڈاکٹر فیروز عالم نے موضوع کا تعارف پیش کیا اور شکریہ ادا کیا۔ اس موقعے پر ڈاکٹر رمیشا قمر کی مرتب کردہ کتاب ”اردو کی تیرہ مقبول کہانیاں“ کا اجرا بھی عمل میں آیا۔اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر بی بی رضا خاتون، اسو سی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو، مانو نے کی۔

بعد ازاں سمپوزیم کے تین اجلاسوں میں جناب شفیع مشہدی، جناب سلام بن رزاق، پروفیسر غضنفر، پروفیسر طارق چھتاری، جناب مظہرالزماں خاں، جناب نورالحسنین اور محترمہ قمر جمالی نے افسانے پیش کیے۔پہلا اجلاس پروفیسر طارق چھتاری کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں جناب شفیع مشہدی نے افسانہ ”سنیچر شاہ“، پروفیسر غضنفر نے ”مسنگ مین“ اور محترمہ قمر جمالی نے” پدرم سلطان بود“ پیش کیا۔ ڈاکٹر گل رعنا،پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی اور ڈاکٹر حمیرہ سعیدنے بالترتیب ان افسانوں کا تجزیہ کیا۔اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر محمد امتیاز عالم، ریسرچ آفیسر، آئی ایم سی، مانو نے کی۔ دوسرا اجلاس پروفیسر غضنفر کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں پروفیسر طارق چھتاری نے افسانہ ’’آدھی سیڑھیاں“ اورجناب مظہر الزماں خاں نے ”بستی“ قارئین کی نذر کیا۔ ” آدھی سیڑھیاں“ کا تجزیہ ڈاکٹر سید محمود کاظمی صدر شعبہ ترجمہ، مانو اور ”بستی“ کا تجزیہ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون نے کیا۔اس اجلاس کی نظامت شعبہ کی گیسٹ فیکلٹی ڈاکٹر بدر سلطانہ نے کی۔ آخری اجلاس کی صدارت جناب شفیع مشہدی نے کی۔ اس میں جناب سلام بن رزاق نے” دی پراڈگل سن“ اور جناب نورالحسنین نے ”بھور بھئی جاگو“ کے زیر عنوان اپنے افسانے پیش کیے۔” دی پراڈگل سن“ کا تجزیہ ڈاکٹر اسلم پرویز، مترجم، نظامت ترجمہ و اشاعت اور ”بھور بھئی جاگو“ کا تجزیہ ڈاکٹر محمد زاہدالحق ، اسو سی ایٹ پروفیسر، سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآبادنے کیا۔ ڈاکٹر جابر حمزہ ،گیسٹ فیکلٹی، شعبہ اردو نے اس اجلاس کی نظامت کی۔

جلسے میں شہر سے آئے ہوئے مہمانوں کے علاوہ یونیورسٹی کے اساتذہ، افسران اور طلباء و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔یونیورسٹی کے انسٹرکشنل میڈیا سنٹر نے سمپوزیم کے تمام اجلاسوں کا راست ویب کاسٹ یونیورسٹی کے یو ٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر کیا۔

 

مانو میں بٹن مسالہ ٹیکنیک سے ملبوسات کی تیاری پر ورکشاپ

ممتاز ڈیزائنر انوج شرما کا کپڑوں کو کاٹے اور سیئے بنا ملبوسات کی تیاری کا عملی مظاہرہ

حیدرآباد، 30 نومبر(پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی میں سمانا کالج آف ڈیزائن اسٹڈیز کے اشتراک سے فیشن و انٹیریر ڈیزائننگ کورسز مرکز برائے مطالعاتِ اردو ثقافت کی عمارت میں چلائے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں آج ”بٹن مسالہ ٹیکنیک“ ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد عمل میں آیا۔

اس موقع پر صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے کہا کہ یونیورسٹی میں فیشن ڈیزائننگ کورس کے آغاز سے ہم دوسروں کو ایک نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ لڑکیوں کے لیے یہ کورس خود کفیل بننے کی سمت ایک بڑا قدم ہے۔ کاروبار میں مندی آتی ہے لیکن فیشن ڈیزائن ایک ایسا پیشہ ہے جس میں مندی نہیں آتی۔ ابھی ہم نے یہاں فیشن و انٹیریر ڈیزائن کے کورسز کا آغاز کیا ہے۔ اس کے بہترین نتائج شائد فوری نہیں آئیں گے۔ وقت لگے گا۔ اور پھر ایسا موقع آئے گا کہ یہاں کے طلبہ قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوائیں گے۔

ممتاز ڈیزائنر جناب انوج شرما، جو اس تکنیک کے بانی ہے نے حاضرین کے سامنے بتایا کہ کس طرح بٹن اور ربر بینڈ کی مدد سے بنا کپڑا کاٹے اور سیئے مختلف ملبوسات، پرس وغیرہ بنائے جاسکتے ہیں اور پھر انہیں کھول کر دوسری شکل دی جاسکتی ہے اور انہیں دھویا بھی جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کپڑے سے تقریباً دو لاکھ مختلف نوعیت کے ملبوسات تیار کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ تکنیک 20 ممالک میں پر ورکشاپ میں لوگوں کو سکھائی ہے۔ پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار؛ جناب الطاف حسین، ایس سی ڈی ایس اور محترمہ سمانا موسوی، صدر نشین ، سمانا بھی موجود تھیں۔ محترمہ شیبا عباس، سی ای او سمانا نے کارروائی چلائی۔

 ---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

مانو میں دوسرے گیٹ کی تعمیر کا آغاز

حیدرآباد، 30 نومبر(پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے دوسرے باب الداخلہ ”سلور جوبلی گیٹ“ کے تعمیری کاموں کا کل افتتاح پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر کے ہاتھوں عمل میں آیا۔اس گیٹ کے ذریعہ خواجہ گوڑہ روڈ سے یونیورسٹی میں داخلہ کی سہولت ہوجائے گی۔ اس موقع پر پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار؛ پروفیسر شکیل احمد، صدر نشین، گیٹ کمیٹی؛ جناب ناگیشور ریڈی ، ایگزیکیٹیو انجینئر، کمیٹی اراکین و صیغہ انجینئرنگ کے اراکین موجود تھے۔