معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے والے اور اخلاقی قدروں کی نشوونما کرنے والے ادب کی ضرورت

Hyderabad,


معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے والے اور اخلاقی قدروں کی نشوونما کرنے والے ادب کی ضرورت
مانو میں ادبیات عالم میں اخلاقیات کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس۔ قونصل جنرل ترکیہ مسٹر اوہان اوکان اور شیخ الجامعہ پروفیسرسید عین الحسن کا خطاب

 

حیدرآباد، یکم مارچ (پریس نوٹ) آج دنیا عالمی سطح پر اخلاقی پستی کا شکار ہے جس کے لیے ہمیں نئی نسل میں اخلاقی قدروں کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔موسیٰ علیہ السلام کے دور کی طرح آج کے فرعون کے جادوگرانسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے گیمز، انٹرنیٹ، جھوٹے میڈیا اور دوسری بہت سی شکلوں میں ہمارے سامنے موجود ہیں اور ہمیں گمراہ کر رہے ہیں، ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا اور یہ ہم سے ہمارا مستقبل چھین لیتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہارجناب ارحان یلمان اوکان ، قونصل جنرل ترکیہ برائے حیدرآباد نے کیا۔ وہ آج مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی کے اسکول برائے السنہ و لسانیات و ہندوستانیات کے زیر اہتمام ادبیات عالم میں اخلاقیات کے موضوع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کررہے تھے۔ سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ انسان صرف انسانی جسم رکھنے سے، ہاتھ پیر رکھنے سے، ناک منہ کان رکھنے سے، انسان نہیں بنتا ہے۔ انسان بننے کے لیے اس انسان کے اندر ایک اچھا اخلاق اور کردار بھی ہونا چاہیے اور اس کے لیے ہمیں ایسا ادب تخلیق کرنا ہوگا اور بچوں کو اسے پڑھنے کی عادت ڈلوانی ہوگی جو معاشرے میں مثبت تبدیلی لائے اور اخلاق قدروں کو پیدا کرے۔ انہوں نے اس موقع پر اس بات کا بھی اعلان کیا کہ اردو یونیورسٹی میں عنقریب ایک ترکی کلچرل سنٹر بھی قائم کیا جائے گا۔عزت مآب وائس چانسلرپروفیسر سید عین الحسن نے اپنی صدارتی تقریر میں اس بات پر روشنی ڈالی کہ اخلاقی اقدار انسانیت کا سرمایہ ہے جو قدیم زمانے سے چلے آرہے ہیں اور ہماری زندگی میں ہر چیز اخلاقیات پر مبنی ہے۔ انہوں نے مختلف اشعار کے ذریعہ انسانی اخلاق کی مختلف صورتوں کو واضح کیا اور کہا کہ امانت داری، دیانت داری ، غیر جانبدارانہ رویہ، خودداری، صلہ رحمی، وضع داری، احساس ذمہ داری اور وفاداری وغیرہ ایسی اخلاقی صفات ہیں جو انسانوں کے اندر ہونی لازمی ہے اور سچا ادب وہی ہے جو ان اقدار کو انسانوں کے اندر پیدا کرے۔پروفیسرسید راشد نسیم،صدر شعبہ و ڈین، اسکول آف عرب اینڈ ایشین اسٹڈیز،ایفلو،حیدرآباد نے کانفرنس کا کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مختلف زبانوں کے ادب کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ادب و اخلاق ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہیں اور عربی زبان میں ادب کے معنی اخلاق کے ہی ہیں انہوں نے عربی زبان میں ادب اور اخلاقیات کے ذخیرہ کا ذکر کیا اور بتایا کہ فارسی زبان بھی عربی کی طرح اخلاقیات کے لٹریچر سے مالا مال ہے۔ شیخ سعدی شیرازی سب سے عظیم شاعر اخلاق قرار دیے گئے۔ ترکی زبان، جو کہ عہد عثمانیہ کی ہو یا دورحاضر کی اس میں بھی متعدد تصانیف اخلاقیات پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو اپنی عمر میں حالانکہ بہت چھوٹی ہے مگر اس کا ادب بھی اخلاقیات کے موتی سمیٹے ہوئے ہے۔ کابل یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اے کے رشید اس افتتاحی اجلاس کے مہمان اعزازی تھے۔ انہوں اپنے خطاب میں کہا اخلاقیات کی تعلیم مشرق سے مغرب کی جانب جارہے ہیں۔ مغرب کے لوگ اخلاقی قدروں سے محروم ہوچکے ہیں اور وہ ان اخلاقیات کے مشرق کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ قبل ازیں تلاوت کلام پاک سے اس بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز ہوا۔ کانفرنس کی ڈائرکٹر پروفیسر عزیز بانو، ڈین اسکول برائے السنہ ، لسانیات و ہندوستانیات نے مہمانوں اور حاضرین کا خیرمقدم کیا۔ جب کہ شیخ الجامعہ پروفیسر سید عین الحسن نے مہمانوں کی خدمت میں یادگاریے اور گلدستے پیش کیے۔کانفرنس کے کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر فہیم الدین احمد ،ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ ترجمہ نے اظہار تشکر کے فرائض انجام دیے جب کہ کانفرنس کے کنوینر ڈاکٹر قیصر احمد ، ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ فارسی نے اجلاس کی کارروائی چلائی۔ادبیات عالم میں اخلاقیات کے موضوع پر ہونے والی اس ایک روزہ کانفرنس کے مختلف اجلاسوں میں ملک و بیرون ملک کے مختلف اسکالرس نے آن لائن و آف لائن مقالے پیش کیے۔

 

صحافی اپنے آپ کو زبان و تہذیب سے آگاہ رکھیں

اردو یونیورسٹی ، یونیسیف کے روڈ سیفٹی شعور بیداری پروگرام۔ پروفیسر عین الحسن کا خطاب

 

 

حیدرآباد، یکم مارچ(پریس نوٹ) زبان اور صحافت کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ اس لیے صحافیوں کو ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو زبان و تہذیب سے آگاہ رکھیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کیا۔وہ آج یونیسیف کے تعاون سے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں منعقدہ ایک شعور بیداری ورکشاپ کے افتتاحی اجلاس کو مخاطب کر رہے تھے۔ روڈ سیفٹی بیداری کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسیف کے تعاون سے آج یہ ورکشاپ منعقد کیا گیا۔ افتتاحی تقریب کے دوران اپنی تقریر میں پروفیسر عین الحسن نے کہا کہ صحافت کا کام صرف خبر رسانی نہیں بلکہ ایک سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی صحافی میراث میں انہیں تعلیمات کو چھوڑا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ شعبہ ¿ ترسیل عامہ و صحافت پوری یونیورسٹی کا ایک نمائندہ شعبہ ثابت ہوگا اور آگے بھی اپنی تعلیمی، تحقیقی اور اشتراکی سرگرمیوں کو جاری رکھے گا۔ قبل ازیں ڈین و صدر شعبہ پروفیسر محمد فریاد نے یونیسیف کے تعاون سے منعقد ہونے والے آج کے سمینار کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور کہا کہ شعبہ ¿ ترسیل عامہ و صحافت گذشتہ 6 برسوں کے دوران یونیسیف کے اشتراک سے شہر اور ریاست بھر میں مختلف تعلیمی شعور بیداری اور تربیتی پروگرام منعقد کرتا آرہا ہے اور خاص کر پچھلے 6 برسوں میں صحافت برائے صحت کا پرچہ انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر یونیسیف کے تعاون سے پڑھایا جارہا ہے۔ ان کے مطابق روڈ سیفٹی کے کسی بھی پروگرام کی کامیابی اس میں نوجوانوں کی شمولیت پر منحصر ہے اور یونیسیف کی جانب سے روڈ سیفٹی کے موضوع پر اردو یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے آج کا یہ ورکشاپ اسی کی ایک کڑی ہے۔ یونیسیف کی کمیونکیشن (میڈیا) آفیسر سونیا سرکار نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ روڈ سیفٹی کے لیے جہاں سڑکوں کا انفراسٹرکچر درست ہونا ضروری ہے وہیں پر سڑکوں کے صحت مند استعمال کے متعلق نوجوانوں میں شعور بیداری بھی اہمیت رکھتی ہے۔ آج کے ہندوستان میں روڈ سیفٹی کے فقدان کے سبب یہاں ہر گھنٹہ 4 شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں وہیں اس سے زیادہ تعداد میں نوجوان عمر بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔ اس پس منظر میں مختلف سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور یونیسیف تعلیمی اداروں میں روڈ سیفٹی کے متعلق شعور بیداری کے لیے اس طرح کے تربیتی ورکشاپ منعقد کر رہی ہے۔ سونیا سرکار نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا دستِ تعاون دراز کرنے کے لیے شکریہ ادا کیا۔ یونیسیف کے ہیلتھ اسپیشلسٹ ڈاکٹر سید حب علی نے یو جی ، پی جی اور ریسرچ اسکالرس کے لیے آج کے ورکشاپ میں تربیت فراہم کی۔ جہاں ورکشاپ کے شرکاءکو ملک بھر میں روڈ سیفٹی کے متعلق صورت حال سے واقف کروایا گیا وہیں عوامی شعور کی بیداری کے لیے ان سے اشتہاری پیغامات، کوئز کے سوالات اور ٹیم ڈسکشن بھی رکھے گئے۔ یونیسیف کی جانب سے کمیونکیشن اسپیشلسٹ الکا گپتا، جنڈر اینڈ ڈیولپمنٹ اسپیشلسٹ شپرا جھا نے بھی ورکشاپ میں طلبہ کے لیے تربیت کا سامان فراہم کیا۔