دکن ہیرٹیج کلب 17-2016
دکن ہیریٹیج کلب ارکان (2016-17)
گنبدان ِ قطب شاہی کا دورہ
دکن ہیریٹیج کلب اپنے ارکان طلبا کو ان کے پہلے دورے پر 07.09.2016 کو گنبدان قطب شاہی لے گیا۔ طلبا کو گنبدوں کے احاطے کے اطراف گھمایا گیا اور انہیں ہر عمارت کی تعمیری خصوصیات کے بارے میں تفصیل سے سمجھایا گیا۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح تحفظ کے لیے موجودہ جاری کام علاقے کے بکھرتے ٹوٹتے ڈھانچوں کی بحالی کے لیے اہم ہے۔
قلعہ گولکنڈہ کا دورہ
ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن نے اپنے ارکان طلبا کے لیے 13.10.2016 کو قلعہ گولکنڈہ کا ایک فیلڈ دورہ منعقد کیا۔ گولکنڈہ قطب شاہی حکومت کا اصل صدرمقام تھا اور یہ قلعہ حیدرآباد کے شاندار ماضی کا شاہد ہے۔ طلبا کو پورے قلعے میں گھمایا گیا اور محلوں کے کھنڈرات، مساجد ، پہاڑپر بنی عمارتیں، اصطبل، گودام وغیرہ دکھائے گئے ۔ انہیں ان تعمیری خصوصیات اور صوتی و آبی ٹکنالوجیوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا جو اس دور کے حیران کن انجنئیرنگ کی عکاس ہیں۔
قلعہ بھونگیر کا دورہ
ایچ کے شیروانی مرکز مطالعات دکن نے دکن ہیرٹیج کلب کے ارکان طلبا کے لیے 19نومبر 2016کوبھونگیر قلعہ کی فیلڈ ٹرپ کا اہتمام کیا۔بھونگیر قلعے کو مغربی چالوکیائی حکمراں تریبھو ونا ملاوکرمادتیہ ششم نے دسویں صدی میں ایک علاحدہ یک سنگی چٹان پر تعمیر کیا تھا۔ بعد میں اس پر کاکتیاؤ ں کا قبضہ ہوگیا۔ یہ قلعہ اپنی حیرت انگیزتعمیراور ناقابل تسخیر ہونے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔قلعے کے اندر سجے سجائے دربار ہیں اور ایک خندق قلعہ کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کے اندر تہہ خانہ ، اصطبل ، کنویں اور تالاب کے ساتھ ساتھ ایک اسلحہ خانہ ہے۔
گنبدان پائیگاہ کا دورہ
ایچ کے شیروانی مرکز مطالعات دکن نے دکن ہیرٹیج کلب کے ارکان طلبا کے لیے 9فروری 2017 کو گنبدان پائیگاہ کی فیلڈ ٹرپ کا انعقاد کیا۔1787 اور1880 کے درمیان تعمیر کردہ گنبدان پائیگاہ کو مقبرۂ شمس الامرا بھی کہاجاتا ہے جس میں نوابان ِ پائیگاہ ، جنہوں نے نظاموں کے تحت مختلف حیثیتوں سے خدمات انجام دیں ، کی کئی نسلوں کی قبریں موجود ہیں۔ طلبا کو گنبدوں کے آرکیٹکچر کے بارے میں تفصیلی طورپر سمجھایا گیا۔ پچی کاری میں استعمال شدہ استرکاری کی تکنیک مغلوں ، یونانیوں، فارسیوں ، آصف جاہی ، راجستھانی اور دکنی فن تعمیر کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان گنبدان کی ڈیزائننگ میں استعمال شدہ جیومیٹریکل نمونے منفرد ہیں اور پوری دنیا میں کہیں ان کی مثال نہیں ملتی۔
دکن ہیریٹیج کلب کے ارکان
دکن ہیرٹیج کلب کا افتتاحی اجلاس27اگست 2015 کو ایچ کے شیروانی مرکز مطالعہ دکن میں ہوا۔طلبا جو مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے تھے،انہیں ممبر بنایا گیاساتھ ہی ساتھ ایچ کے شیروانی مرکز مطالعات دکن کے اساتذہ نے پاور پوائنٹ پیشکش کے ذریعہ دکن کے تعمیر ورثہ پر کلب کے سالانہ منصوبہ سے متعارف کیا۔اس میں دکن کی تعمیرات کی بصری توضیحات پیش کی گئی تھیں جس میں وجئے نگر،بہمنی،عادل شاہی،قطب شاہی بادشاہوں اورمراٹھوں کی متعددمثالیں شامل تھیں۔
ایچ کے شیروانی مرز مطالعات دکن نے آغا خان کے ثقافتی ٹرسٹ کے اشتراک سے دکن ہیریٹیج کلب ارکان طلبا کے لیے قطب شاہی کے لیے 10ستمبر 2015کوفیلڈ ٹرپ کا اہتمام کیا۔طلبا کو گنبدوں کے اردگرد لے جایا گیااورانہیں ان یادگار عمارتوں کی تعمیری خصوصیات کی مفصل معلومات فراہم کی گئی۔۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح تحفظ کے لیے موجودہ جاری کام علاقے کے بکھرتے ٹوٹتے ڈھانچوں کی بحالی کے لیے اہم ہے۔
ایچ کے شیروانی مرکز مطالعات دکن نے 31اکوبر 2015کودکن ہیرٹیج کلب کے ارکان طلبا کے لیے ہند یورپی گوتھک تعمیرات ،جس کی ترقی آصف جاہی دور میں ہوئی تھی ،کے مطالعے کی غرض سے میدک گرجا گھر کے لیے فیلڈ ٹرپ کا اہتمام کیا۔طلبا کو گرجا گھر کے ارد گردلے جایا گیا اور انہیں کیتھیڈرل کی بنیاد اور اس کی تعمیراتی خصوصیات کے بارے میں مفصل معلومات فراہم کی گئی۔کیتھیڈرل کو نہ صرف اس کی حیرت انگیز جسامت کے لیے بلکہ اس کی داخلی شان و شوکت کے لیے بھی تسلیم کیا گیا ہے ۔اسے ریو چارلس واکر پوسنیٹ نے1914میں بنوایا تھا۔کیتھیڈرل اپنی 173فیٹ کی بیل ٹاور کے لیے اور دھبے دار شیشے کی کھڑکیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے جوعیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے تین اہم مراحل یعنی ولادت مصلوبیت اورمعراج کو دکھاتے ہیں ۔جونیر پاسٹربرادر کروناکر نے طلبا سے گفتگو کی اوراردو میں تحریر شدہ" نیا عہدنامہ" کا عطیہ دیا۔
ایچ کے شیروانی مرکزبرائے مطالعات دکن نے دکن ہیرٹیج کلب کے ارکان طلبا کے لیے 25نومبر 2015کوبھونگیر قلعہ ،ہزارستونوں والے مندراور ورنگل قلعہ کی فیلڈ ٹرپ کا اہتمام کیا۔بس مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی کیمپس سے طلبا کو لے کر صبح 8بجے روانہ ہوئی اور9بجے رات کو واپس آ گئی۔وہ سب سے پہلے بھونگیر قلعہ گئے جسے 10ویں صدی میں مغربی چالوکیاؤں نے تعمیر کرایا تھا۔طلبا کو ہزار ستونوں والے مندر میں لے جایا گیا جسے1163عیسوی میں کاکتیہ حکمراں گنپتی دیو نے بنوایا تھااور انہیں کاکتیہ فن تعمیر کے مختلف پہلوﺅں کی مفصل معلومات فراہم کی گئی۔اس کے بعد انہیں ورنگل قلعہ لے جایا گیا جہاں انہیں قلعے کے کھنڈرات دکھائے گئے۔یہاں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تحت ان کے تحفظ کاکام جاری ہے، طلبا کو ان کی تفصیلات سے روشناس کرایا گیا۔
ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن نے13 فروری 2016 کو دکن ہیریٹیج کلب کے طلبا ارکان کے لیے گنبدان پائیگاہ اور حیات نگر سرائے کی فیلڈ ٹرپ کا انعقاد کیا۔1787 اور1880 کے درمیان تعمیر کردہ گنبدان پائیگاہ کو مقبرۂ شمس الامرا بھی کہاجاتا ہے جس میں نوابان ِ پائیگاہ ، جنہوں نے نظاموں کے تحت مختلف حیثیتوں سے خدمات انجام دیں ، کی کئی نسلوں کی قبریں موجود ہیں۔ طلبا کو گنبدوں کے آرکیٹکچر کے بارے میں تفصیلی طورپر سمجھایا گیا۔ پچی کاری میں استعمال شدہ استرکاری کی تکنیک مغلوں ، یونانیوں، فارسیوں ، آصف جاہی ، راجستھانی اور دکنی فن تعمیر کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان گنبدان کی ڈیزائننگ میں استعمال شدہ جیومیٹریکل نمونے منفرد ہیں اور پوری دنیا میں کہیں ان کی مثال نہیں ملتی۔طلبا کو حیات نگر سرائے اور حیات بخشی بیگم مسجد لے جایا گیا ۔ ان کی تعمیر 1672 میں گولکنڈہ کے پانچویں سلطان عبداللہ قطب شاہ کے دورحکومت میں ہوئی تھی۔ مسجد کو قطب شاہی آرکیٹکچر میں تعمیر کیا گیا ہے ؛ جس میں ایک بڑی سرائے ، مسافرین کے لیے ریسٹ ہاؤزاور ہاتھی باؤلی ، مسجد کے شمال ۔مشرق ایک بہت بڑا کنواں ہے، جس سے استعمال کےلیے پانی نکا لا جاتا تھا۔