مرکز کی سرگرمیوں کا آغاز 11 ستمبر 2012 کو"دکن کی ملی جلی تہذیب"کے عنوان پر معروف قلمکار ولیم ڈالرمپل کے افتتاحی لکچر سے ہوا۔ اس لکچر نے تاریخی مطالعہ کی نئی راہیں ہموار کیں اور دکن کی ملی جلی تہذیب کے کئی خوبصورت پہلو اجاگر کیے۔ یہ تصاویر سے مزین تھا ، اردو میں ترجمہ پیش کیا گیا اور انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں ایک مونوگراف کی حیثیت سے سامنے آیا۔ یہ لکچر ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن کے پہلے پبلی کیشن کی حیثیت سے شائع ہوا۔ 

دوسرا پروگرام 27 نومبر 2012 کو دکنی منی ایچر پینٹنگ پر منعقد ہوا جس میں عالمی شہرت یافتہ فنکار جتین داس نے اسی موضوع پر ایک لکچر دیا۔ ان کے مطابق دکن کی منی ایچر پینٹنگ پر فارسی اور قلمکاری فنون کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس کے اطراف پیچیدہ حدبندیوں کی غیرموجودگی نے اسے نمایاں کردیا لیکن وہیں شوخ رنگوں نے اسے پُرکشش بنادیا۔ انھوں نے پُرزور انداز میں کہا کہ آرٹ کے ان شاہکار نمونوں کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ اور بحال کیا جانا چاہیے ۔ ڈاکٹر سلمیٰ فاروقی ڈائرکٹر ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن نے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعہ ان پینٹنگز کا تاریخی پس منظر پیش کیا۔

 

سابق مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل شری ایم ایم پلم راجو نے 31 دسمبر 2012 کو  ایچ کے شیروانی مرکز برائے دکنی مطالعات کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ دکن کو منفرد تاریخ و تہذیب و ثقافت کا حامل ایک منفرد جغرافیائی مقام بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ علاقہ کی بین شعبہ جاتی تحقیق میں مرکز برائے مطالعات دکن اہم کردار ادا کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی تجویز دی کہ مرکز میں ایک میوزیم قائم کیا جانا چاہیے تاکہ دکن سے متعلق ہر امتیازی چیز کو پیش کر سکیں۔

مرکز نے یونیورسٹی آف ڈیلویر، امریکہ سے تاریخ کے پروفیسر روڈی ماتھی کو مدعو کیا جنھوں نے 9 جنوری 2013 کو "تاریخی روابط: ایران اور دکن" کے عنوان پر لکچر دیا۔

مرکز برائے دکنی مطالعات نے سپیک ماکے اور آسٹریلیا۔ہند کونسل کے تعاون سے مشہور نقاد قلمکار و صحافی جان زوبرزیکی سے جو اس وقت سڈنی میں آسٹریلیائی اخبار کے عالمی تبصرہ نگار مدیر ہیں،"نظام کی تاریخ اور سوانح حیات: ساتھ ساتھ"کے عنوان پرایک مکالمہ کا یکم فروری 2013 کو اہتمام کیا۔ جناب زوبرزیکی نے کہا کہ نظام دور میں ریاست حیدرآباد میں تعلیم،صنعت، معیشت اور تجارت میں غیرمعمولی ترقی ہوئی جس کی مثال نہیں ملتی ، پھر انھوں نے حیدرآباد کے عظیم ورثہ کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔ 

مرکز نے ایک بڑا تحقیقی مطالعہ بعنوان ‘‘دکن کا نقشہ جاتی خاکہ’’ مکمل کیا جس میں 135 نقشے اور بحری چارٹس شامل ہیں جو نقشہ  نگاروں، ماہرین بحری پیمائش اور غیر ملکی سیاحوں کے پیش کردہ ہیں۔ ان میں بعض زائد از 900 سال قدیم اور چند ایک صرف 100 سال پرانے ہیں۔ یہ نقشہ جات دس مختلف زبانوں یعنی پرتگالی، ڈچ، فرانسیسی، انگریزی، جرمن، اطالوی، لاطینی، کٹالی، چینی اور عربی میں ہیں۔ جناب نجیب جنگ لفٹننٹ گورنر دہلی نے اس کتاب کے انگریزی و اردو نسخوں کی حیدرآباد میں 20 ستمبر 2013 کو اجرائی کی۔ کتاب نہایت اہمیت اور بے حد دلچسپی کی حامل ہے کیونکہ دکن پرایساکوئی  تاریخی اطلس تاحال موجود نہیں ہے۔

اپنے مینڈیٹ  کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، مرکز نے تاسیس حیدرآباد کے موقع پر'قلی دلوں کا شہزادہ' کے عنوان سے ایک ڈرامہ کا بھی اہتمام کیا جسے مشہور قادر علی بیگ فاؤنڈیشن نے 13 فروری 2014 کی شام 7بجے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وسیع و عریض مدوّر تھیٹر میں پیش کیا۔ اردو زبان میں پیش کردہ ڈرامہ کی خصوصیات یہ تھیں کہ اس میں محمد قلی قطب شاہ اور  بھاگ متی کی افسانوی محبت کی داستان کو مکالموں کی شکل میں پیش کیا گیا جس میں پرچھائیوں کےرقص میں بندش کی گئی، ادوار کے پس منظر اور لباس سے آراستہ کیا گیا ساتھ ہی راست قوالی و نظمیں اور خود شہزادہ قلی قطب شاہ کی لکھی ہوئی اردو و فارسی شاعری پیش کی گئی۔ 65 منٹ پر محیط اس ڈرامہ کا مشاہدہ تقریباً ایک ہزار ناظرین نے کیا جن میں مختلف شعبہ ہائے حیات کی ممتاز شخصیات شامل تھیں۔

مرکز نے گنبدان قطب شاہی  کی بحالی کے لیے  3 جون 2014 کو ایک اہم بیداری جلسہ منعقد کیا جس میں معروف ہندوستانی آثار قدیمہ آرکیٹکٹ رتیش نندا نے جو گنبدان قطب شاہی کی تزئین کے کاموں کی  پراجیکٹ ڈائرکٹر آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت کی حیثیت سے نگران کار ہیں، جاریہ کاموں کی تفصیلات سے واقف کروایا۔ تبادلہ خیال کی نشست کی صدارت معزز سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد میاں نے کی جس میں ممتاز ماہرین آثار قدیمہ، آرکیٹکٹ، انجینئرس، ماہرین تعلیم اور امریکی قونصل خانہ کے نمائندوں، ایڈمنسٹریٹرس، بیورو کریٹس، میڈیا کی شخصیات اور سماجی جہدکاروں نے شرکت کی اور آثار قدیمہ کے نظم و تحفظ میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ 

آثار قدیمہ پر دس روزہ ورکشاپ 
ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات نے آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت، نئی دہلی کے اشتراک و تعاون سے ایک دس روزہ آثار قدیمہ ورکشاپ مانو کے شعبہ تاریخ کے طلبہ کے لیے گنبدان قطب شاہی پر 24 نومبر تا 3دسمبر 2014ء منعقد کیاتاکہ انڈرگریجویٹ طلبہ کو آثار قدیمہ کی حفاظت کے طریقہ کار سے متعارف کروایا جائے اور انہیں آثار قدیمہ و ثقافتی وسائل کے نظم کی برسرعام تربیت دی جائے۔ دوران ورکشاپ نامور ماہرین آثار قدیمہ ‘ مورخین اور تحفظ ماحول کے حامیوں  کی جانب سے انہیں آثار قدیمہ اور اس کی حفاظت کی تکنیک سے روشناس کروایا گیا۔ ورکشاپ نے طلبہ کو آثار قدیمہ کا تصور، اس کی حفاظت کے طریقہ کار اور آلات کے ساتھ ساتھ ثقافتی  آثار قدیمہ کے نظم و انصرام کی تفصیلی معلومات فراہم کیں۔ 
طلبہ کو آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت کی جانب سے کی جانے والی کھدوائی کی سرگرمیوں میں شامل کیا گیا جو سولھویں صدی میں تعمیر کردہ شاہی شہر خموشاں کے حدود اربعہ کا پتہ چلانے کے لیے کی جارہی تھیں۔ 
ان کھدوائیوں کا مقصد گذرگاہوں، آبی نظام اور باغات کا پتہ چلانا ہے جو اس عمارت کے حصہ میں شامل ہیں۔ دوران عملی مشق، طلبہ کو آثار قدیمہ کے کسی مقام کی شناخت ، سروے کے معیارات ، مقام کی تفصیلات یکجا کرنے، اکٹھا کی گئی معلومات کی تنقیح اور حاصل نتائج کی دستاویز تیار کرنے کے طریقہ کار سے واقف کروایا گیا۔ طلبہ نے سیاحتی رہبر کے فرائض بھی انجام دیئے اور گنبدان قطب شاہی کو آنے والے سیاحوں کی رہبری کی۔ 
جناب کے کے محمد معروف ماہر آثار قدیمہ و پراجیکٹ آثار قدیمہ ڈائرکٹر ، آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت نے آثار قدیمہ کے مختلف پہلوؤں جیسے آثار قدیمہ کی اقسام، دریافت، کھدوائی اور آثار قدیمہ کے مقامات کا تحفظ، انسانی جانچ، نقل مکانی کے نمونے، آباد کاری کی نوعیت، تاریخ نگاری کا طریقہ، برتنوں کی قسمیں، ثقافتی و تاریخی اشیا کی پہچان اور ہڈیوں کا تجزیہ وغیرہ پر کئی لکچرس دیئے۔

یونیورسٹی آف حیدرآباد کے پروفیسر سنجے سبودھ نے قطب شاہی دور کے حمام اور آبی نظام کی ٹکنالوجی پر روشنی ڈالی جو کہ  معماروں کے جدیدترین آبی اور حر حرکی انجینیرنگ فن تعمیر کی گواہ ہے ۔  یونیورسٹی آف حیدرآباد میں تاریخ کے پروفیسر و معروف ماہر آثار قدیمہ پروفیسر کے پی راؤ نے 'میگالتھس' یعنی بھاری پتھروں سے یادگارعمارتوں کی تعمیر کے عالمی رجحان کی تفصیل بتائی جو ماہرین آثار قدیمہ کے لیے دلچسپی کا اہم پہلو ہے۔  انہوں نے آثار قدیمہ مقامات کی ڈیجیٹل پیمائش کے لیے جغرافیائی  اطلاعاتی نظام (GIS)سے مدد کی مثال دیتے ہوئے آثار قدیمہ کی کھدائی میں  ٹکنالوجی کے استعمال کی وضاحت کی ۔ مسٹر سی ۔ ایچ ۔ بابجی راؤ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنگ آرکیالوجسٹ ۔ حیدرآباد ، سرکل، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا، نے آثار قدیمہ کے وسائلی مواد ، آثار قدیمہ کی کھدائی کے مقاصد ، تاریخ نویسی کے طریقہ کار ، گرڈ طریقہ کار وغیرہ کی وضاحت کی۔

فرہنگ اصطلاحات ِ دکنیات کی اجرائی

ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن ، نے تحقیق کے اپنے عہد اور تدریس میں اقدار پر مبنی تجرباتی نظریہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا دوسرا تحقیقی کام بعنوان "فرہنگ اصطلاحات ِ دکنیات" منظر عام پر لایا جس میں علاقہ دکن میں مستعمل علمی اصطلاحات اور ان کے معانی کو ابجدی فہرست میں ترتیب دیا گیا۔ اس کتاب کا رسم اجرا عزت مآب مملکتی وزیر برائے اقلیتی امور، حکومت ہند جناب مختار عباس نقوی نے انجام دیا اور اس موقع پر پروفیسر وید پرکاش صدرنشین یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور پروفیسر محمد میاں عزت مآب وائس چانسلر اور دوسرے قابل قدر مہمانان موجود تھے۔ کتاب میں دکن سے متعلق مختلف زبانوں جیسے اردو، انگریزی، عربی، فارسی، ترکی، پراکرت (ستواہناؤں ،بعد کےحکمرانوں اور کاکتیاؤں  سے جڑی اصطلاحات)، سنسکرت، تلگو، تمل(وجئے نگر دور حکمرانی سے جڑی اصطلاحات)، کنٹرا اور مراٹھی کے تقریباً دس ہزار الفاظ و اصطلاحات یکجا کیے گئے ہیں۔

بین الاقوامی اسکالر کی مرکز سےوابستگی

ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن، نے2013 میں  امداد برائے تحقیق و سفر کے لیے" اے ایس پی ایس /مانووزیٹنگ اسکالر فیلو شپ "کے لیے انجمن مطالعات جوامع فارسی زبان(Association for the Study of Persianate Societies)کے ساتھ بین الاقوامی اشتراک کیا ہے۔ کناڈا کی یونیورسٹی آف ٹورانٹو کے شعبہ مذہبی مطالعات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر کرین رفل کا سال 2014-15 کی فیلو شپ کے لیے اولین تحقیق کار کی حیثیت سے انتخاب کیا گیا۔ وہ چھ  ماہ کی مدت کے لیے  مرکز سے وابستہ رہیں گی اور 'بدنی شیعت: دکنی تشیع مواد اور مذہبی افعال میں جسم اور مذہبی عملٗ کے موضوع کے تحت مجوزہ  تحقیقی پراجیکٹ پر کام کرے گی۔

ICOMOS Meeting

ہندوستان کی انٹرنیشنل کاﺅنسل آن مونومنٹ اینڈ سائٹس(آئی کوموس)،ہندوستان،یونیسکو کی عالمی ہیریٹیج( میراث )سے متعلق معاملات کے صلاح کاروں کی مجلسِ عامہ کاسالانہ اجلاس 22مارچ2015کو مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ہوا۔آئی کوموس نے ایچ کے شیروانی مرکز مطالعات دکن کی دستاویز تیار کرنے کی تربیت کے لیے  ایک ورکنگ گروپ کو تیار کیاجو دستاویزی مرکز اور تحفظاتی اسٹوڈیو کا قیام عمل میں لانے کا کام انجام دے گا جس سے مرکز میں ہیریٹیج کے انتظام و انصرام کا کام بخوبی کیا جا سکے۔اس کے تحت آرکائیوز ،کتب خانہ،عجائب گھر اور سائنسی جانچ کے لیے تجربہ گاہ قائم کی جائے گی۔

 

دکن کے تجارتی نیٹ ورک کا اجرا

ایک تحقیقی مقالہ بعنوان" دکن کا تجارتی نیٹ ورک "تحریر کیا گیا جو پرانے زمانے میں دکن کی تجارتی سرگرمیوں کی ایک دلچسپ داستان بیان کرتا ہے،اس کے پانچ ابواب بحرِ ہند کی پیچیدہ دنیا کے تحقیقی مطالعے پر مشتمل ہیں،اس میں تجارتی طبقوں کا ارتقا، مادی اشیاکی تحریک،بندرگاہوں کاابھار اور دکن کے مشرقی اور مغربی ساحلوں پر تجارتی مراکز،تجارتی راستے اور دکنی ریاستوں کے حکمرانوںکا تجارت کو فروغ دینا وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔تحقیقی مطالعہ کا اجرامعروف قانون داں اور ادیب جناب اے جی نورانی اور عزت مآب شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویزنے 21جنوری 2016کومولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کیمپس میں کیا۔

 

جناب اے جی نورانی کا خطبہ:

جناب اے جی نورانی،معروف قانون داں نے ہندوستانی تاریخ کے نہایت اہم ایسے موضوع پر خطبہ دیا جس نے ریاست حیدرآباد کی تقدیر ہی بدل دی تھی ۔ اس خطبہ کا عنوان تھا"1947سے1948تک دہلی اور حیدرآبادکے مابین تعلقات"۔انھوں نے ان حالات اور واقعات کا حوالہ دیاجو 1947سے 1948تک غالب تھے۔ان کے بقول نوابی ریاست حیدرآباد میں آپریشن پولو، جسے پولس ایکشن کے نام سے جانا جاتا ہے ایک بہت بڑا سانحہ تھا،جس سے شروع میں بچا جا سکتا تھا ۔اس خطبہ کا اہتمام مولانا آزاد یونیورسٹی کے کیمپس میں 21جنوری 2016کو کیا گیا۔

لکچر اور پاورپوائنٹ پریزنٹیشن از ڈاکٹر این طاہر ، سپرنٹنڈنٹ آثار قدیمہ ، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) ، حیدرآباد سرکل

 ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن نے 22 ستمبر 2016 کو سپرنٹنڈنٹ آثار ڈاکٹر این طاہر ، سپرنٹنڈنٹ آثار قدیمہ ، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) ، حیدرآباد سرکل کے ایک لکچر کا انعقاد کیا جس عنوان تھا "ایک مونومنٹ کی شخصیت: دکن کے پرانے گوا میں سینٹ آگسٹین کمپلیکس کی ایک کیس اسٹڈی ۔ یہ ایک اہم لکچرتھا جیسا کہ اس نے متعدد مضامین جیسے آثار قدیمہ ، تاریخ ، جینیات اور کیمسٹری کی عکاسی کرتے ہوئے اس مرکز کے ہمہ شعبہ جاتی اکیڈیمک کردار پر روشنی ڈالی ۔

30-31جنوری 2017 کو دکن میں نیٹ ورکس پر بین الاقوامی سمپوزیم 

ایچ کے شیروانی مرکز برائے مطالعات دکن نے 30-31 جنوری 2017 کو" دکن میں نیٹ ورکس " کے موضوع پر ایک بین الاقوامی سمپوزیم کا اہتمام کیا۔ ایک ایسے ہندوستان میں جس کی تاریخ نگاری شمال ہند مطالعات کا غلبہ رکھتی ہے ، دکن کے متعدد آفاقی رابطوں کو تسلیم کرنا دکنی اسکالر کے لیے ایک تسلی بخش بات ہے۔  یہ نہ صرف اس خطے کے قابل ذکر ورثہ ظاہرکو کرتا ہے ، بلکہ دکن کی موجودہ فکری زندگی کا شاہد ہے۔

خطے میں تاریخی ، تہذیبی اور تجارتی رابطوں کے احاطے کے لیے  ’نیٹ ورکس‘عنوان انتخاب کیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ ایک ایسے تنوع کا جشن تھا جس کا مقصد دکن کے حرکی  پہلوؤں پر کام کرنے والی مختلف فیکلٹیوں کے ساتھ پائیدار روابط قائم کرنا تھا۔
ہندوستانی اور غیر ملکی دونوں دانشوروں کے اجتماع، جن کے بیک گراؤنڈ مختلف تھے اور جنہوں نے - تلنگانہ ، آندھراپردیش ، مہاراشٹرا ، کرناٹک اور گوا کا گہرا فہم رکھتے تھے ، نے دکن کے تحقیق پر کئی پہلوؤں سے روشنی ڈالی جیسے قرون وسطیٰ کے بیجاپور میں دھلائی و صفائی کا نظام ، جنگوں میں استعمال ہونے والی ٹکنکیں، دفاعی مقصد کے علاوہ قلعوں کا استعمال ،جنوبی مشرقی ایشیا سے تجارتی اور ثقافتی روابط، فنکار طبقہ کی حیثیت وغیرہ۔

اس میں مختلف تقاریر اور پریزینٹیشن دیے گئے جن میں عالمی تناظر میں دکن کی حیثیت سے لے کر وقتاً فوقتاً جنگوں اور وہ  ادوار جن میں نسلی مذہبی گروہوں نے اقتدار حاصل کیا تھا ، آرٹ کی تاریخ ، فن تعمیر ، تجارت اور زبان جو مختلف معاشروں اور جودکن کے مختلف ادواربشمول ٹکراؤ کو ظاہرکرنے والی روایات کا مرکب تھیں ، جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔